ڈاکٹر ارسلان افتخار کیس

Sep 12, 2012

بیرسٹر ظہور بٹ

قارئین کو یاد ہوگا کہ مئی 2012 کے اواخر میں کچھ ایسی افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بےٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار نے بحریہ ٹاو¿ن کے مالک ملک ریاض اور ان کے داماد سلمان خان سے کروڑوں روپے کی رشوت اس بنیاد پر لی کہ وہ اپنے والد سے سفارش کرکے بحریہ ٹاو¿ن اور ملک ریاض کے خلاف جعل سازی کے مقدمات میں کچھ نرمی کروا دیں گے جیسے ہی چیف جسٹس کو اس کا علم ہوا انہوں نے انہوں نے 5جون 2012 کو اس کا از خود نوٹس لےتے ہوئے اپنے علاوہ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل سپریم کورٹ کا ایک تین رکنی بینچ تشکیل دیا اور ان سب کو اپنی عدالت میں طلب کر لیا 6 جون کو ارسلان افتخار عدالت میں پےش ہوئے اور انہوں نے یہ الزامات ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کےس میں چیف جسٹس کا بےٹا ملزم تھا اس لئے انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھے ہوئے چیف جسٹس از خود اس کےس سے الگ ہوگئے 14 جون کو تمام ملزمان عدالت میں پےش ہوئے اور ملک ریاض نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں آج تک ان کے کسی بھی مقدمے میں سپریم کورٹ سے کوئی رعائت نہیں ملی اس کے بعد عدلیہ نے سپریم کورٹ کے اٹارنی جنرل عرفان قادر کو اس مقدمے کی تہہ میں جاکر ارسلان افتخار، ملک ریاض اور ان کے داماد سلمان خان کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا 18 جون کو اٹارنی جنرل نے تحقیقات کی ذمہ داری نےب کے چےئر مین ایڈمرل بخاری کو سونپ دی 13 جولائی کو ارسلان افتخار نے نیب کی تحقیقات کو غیر قانونی قرار دےتے ہوئے نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی 31 جولائی کو ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحاق خان کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے نیب کی انکوائری پر حکم امتناعی جاری کر دیا 30 اگست کو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے طرز عمل کو غیر جانبدارانہ قرار دےتے ہوئے کےس کی انکوائری نےب سے لے کر ڈاکٹر شعیب سڈل کو سونپ دی اور انہیں ایک ماہ میں اپنی رپورٹ پےش کرنے کا حکم دیا اس ڈویژنل بینچ نے اپنے اس فیصلے کی تفصیلی وجوہات بھی بیان کیں جن میں دوسری باتوں کے علاوہ نیب کے چیئرمین ایڈمرل بخاری اور ملک ریاض کے درمیان گہرے تعلقات کا انکشاف ہوا تھا یہ بھی معلوم ہوا کہ اٹارنی جنرل عرفان قادر ماضی میں ملک ریاض کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار اےسوسی اےشن عاصمہ جیلانی فرماتی ہیں کہ سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہی کیونکہ ارسلان افتخار کےس میں ڈاکٹر شعیب سڈل کمیشن کا قیام گھر میں تفتیش کروانے کے مترادف ہے اس جھک بازی کے حق میں ان کی دلیل یہ ہے کہ ڈاکٹر شعےب سڈل نے کئی سال پہلے ارسلان افتخار کی شادی میں شرکت کی تھی مگر انہوں نے یہ نہیں بتلایا کہ اس شادی میں وہ خود بھی شامل تھیں ہمارے ملک میں روزانہ سینکڑوں شادیاں ہوتی ہیں خاص طور پر سرکاری افسران کے بچوں کی شادیوں میں حسب روائت تمام سرکاری محکموں کے افسران کو بلانا ایک قسم کا فیشن بن گیا ہے اور ہوتا بھی یہی ہے کہ ان دعوتوں میں شرکت کے بعد یہ افسران سالوں تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے اس لئے کسی کی شادی میں شرکت کو وجہ بنا کر یہ کہنا کہ ارسلان افتخار کےس میں ڈاکٹر شعیب سڈل کمیشن کا قیام گھر میں تفتیش کروانے کے مترداف ہے ایک غیرمعقول دلیل معلوم ہوتی ہے۔ محترمہ اگر 30 اگست کو جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ کے تفصیلی فیصلے کو غور سے پڑھ لےتیں تو انہیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہو جاتا کہ عدلیہ کو یہ کےس نیب سے لے کر ڈاکٹر شعیب سڈل کو کیوں منتقل کرنا پڑا حیرانگی اس بات کی ہے کہ کیا محترمہ کو معلوم نہیں تھا کہ اٹارنی جنرل عرفان قادر اور نیب کے چیئر مین ایڈمرل بخاری کے ملک ریاض کے ساتھ کتنے گہرے مراسم ہیں؟ ن حالات میں اگر یہ کےس نیب کے پاس رہتا تو کیا ارسلان افتخار کے ساتھ انصاف ہو سکتا تھا؟ یہ تو ایسے ہی ہوتا جیسے کسی بھےڑ کو ایک بھےڑیے کے ساتھ ایک ہی پنجرے میں بند کر دیا جائے؟
ڈاکٹر شعیب سڈل غالباً پاکستان کے واحد پولیس آفیسر ہیں جنہوں نے کریمنولوجی (Crimnology) میں PHD کی ہوئی ہے اور ان کا شمار پاکستان کے ان چند معدودے افسران میں ہوتا ہے جنہوں نے آج تک انتہائی ایمانداری اور ہمت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں اس لئے اگر انہیں عدلیہ نے ارسلان افتخار اور ملک ریاض اور ان کے داماد سلمان خان کے معاملے میں تحقیقات کے لئے کہا ہے تو آپ دےکھیں گے کہ وہ بغیر کسی دباو¿ کے اس معاملے کی تحقیق کرکے اپنی رپورٹ عدلیہ کو پےش کر دیں گے اور اس کےس میں جو بھی ملزم قرار پائے ان کے خلاف انتہائی سخت کاروائی کی سفارش بھی کریں گے۔

مزیدخبریں