کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کے علاقےحب ریور روڈ پرگارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ نے خواتین اوربچوں سمیت دو سو نواسی افراد کوابدی نیند سلادیا۔

گزشتہ روز لگنے والی آگ پر بارہ گھنٹے کی سرتوڑ کوشش کےبعد قابوپایا گیا جہاں سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ لاشیں ناقابل شناخت ہونے کی وجہ سے لواحقین کواپنے پیاروں کی شناخت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ آتشزدگی کے باعث عمارت میں دراڑیں پڑگئیں جس کے باعث عمارت کسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتی ہے۔ فیکٹری کے باہررقت آمیزمناظر دیکھنے میں آرہے ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد

اپنے پیاروں کی تلاش کیلئے جمع ہے۔ جاں بحق ہونے والے زیادہ ترمزدورفیکٹری کے تہہ خانے، پہلی اور دوسری منزل پرکام کر رہے تھے۔ فیکٹریوں میں انسپکشن کا نظام نہ ہونے سے کراچی سے لاہورتک مزدورمرتے رہے لیکن کسی ادارے کی جرات نہ ہوئی کہ پندرہ سال سے فیکٹریوں کی انسکپشن کر سکے، انیس سوستانوے میں نوازشریف کے دور حکومت میں سرمایہ کاروں کے مطالبے پرفیکٹریوں کی انسپیکشن پرپابندی لگا دی گئی تھی جو کسی حکومت نے نہیں اٹھائی۔ اس سے بھی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج تک کسی سانحہ کی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکیں۔ کراچی میں ہونے والے اس تازہ سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے قتل کا مقدمہ کس کے خلاف درج ہو گا؟ ریاست، محکمہ صنعت، محکمہ لیبر یا خود فیکٹری مالکان کے خلاف؟ ان کا کیا ہوگا جوپیٹ کی بھوک مٹانے کی تگ ودو میں خود آگ میں جل کر بھسم ہو گئے؟

ای پیپر دی نیشن