چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات

پاکستان کی عدلیہ کی پوری تاریخ میں ایسی عزت و احترام، ایسا وقار اور ایسی مقبولیت کسی اور چیف جسٹس کو حاصل نہیں ہوئی جیسا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو عطا کر رکھا ہے۔ وہ افتخار محمد چودھری جن کے ایک انکار نے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا سارا زعمِ اقتدار خاک میں ملا دیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے عدلیہ کی آزادی اور وقار کی جنگ لڑ کر جس جرات اور بہادری سے فوجی آمریت کے جاہ و جلال کو شکست دی تھی وہ اب ہماری قومی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ جب پاکستان بھر میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک جاری تھی تو ایک موقع پر جنرل پرویز مشرف کے حکم سے کراچی شہر کو مقتل بنا دیا گیا تھا۔ اس دن جناب افتخار محمد چودھری کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرنا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر کراچی ائرپورٹ تک تو پہنچ گئے لیکن اسلام آباد کے ایوان صدر میں چھپا بیٹھا فوجی ڈکٹیٹر معزول چیف جسٹس سے بھی اتنا خوفزدہ تھا کہ کراچی کی سڑکوں پر اسکے حکم سے پچاس کے قریب بے گناہ شہریوں کو صرف اسلئے قتل کر ڈالا گیا کہ چیف جسٹس وکلا کے جلسہ عام میں نہ پہنچیں اسلام آباد میں بھی جب جناب افتخار محمد چودھری کو ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی تو وہاں بم دھماکہ کے ذریعے کئی شہری شہید اور لاتعداد زخمی کر دئیے گئے۔ گویا جبر و تشدد کے ہر حربے کو استعمال کرکے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو عدلیہ کی آزادی اور آئین کی حرمت کی جنگ سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اپنی جان کی بازی لگا دینے سے بھی گریز نہ کرکے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے آئین کی بالادستی اور قانون کی سربلندی کی جنگ بالآخر جیت لی۔ آج پوری شان سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تو اپنے جلیل القدر منصب پر موجود ہیں لیکن اس دور کا فوجی ڈکٹیٹر مختلف مقدمات میں گرفتار ہو کر اپنے فارم ہائوس ہی میں قید ہے۔
میں وکلا کے ایک مختصر ترین وفد کے ساتھ منگل 10 ستمبر کو جناب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ملاقات کیلئے اسلام آباد میں تھا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سیالکوٹ کے صدر ملک مشتاق احمد جناب چیف جسٹس کا باضابطہ طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے سیالکوٹ بار میں آنے کی ہماری دعوت قبول کر لی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری دن بھر کی تھکا دینے والی طویل عدالتی مصروفیات کے بعد بھی تقریباً تین گھنٹے تک اپنے چیمبر میں متفرق ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ اسکے بعد ہمارے وفد کی ملاقات تھی۔ ہمیں اپنے محبوب چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے تین گھنٹے تک انتظار کی کلفت سے گزرنا پڑا مگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد کے بعد ان کی معذرت اور محبت بھرے انداز نے ہماری تمام تر اکتاہٹ اور تھکاوٹ دور کر دی۔ افتخار محمد چودھری صاحب سے آپ جتنی دفعہ بھی ملیں ان کا یہ انداز محبت ملنے والوں کے دلوں پر نقش ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ہر علاقائی سے اسکی نشست پر جا کر اس طرح حال احوال پوچھتے ہیں کہ چیف جسٹس کا ہر مہمان خود کو مہمان خصوصی تصور کرنے لگتا ہے۔ وکلا کے وفد میں ہمارے ساتھ ڈسکہ بار کے صدر چودھری فقیر سائیں اور سمبڑیال بار کے صدر رانا قیصر اختر بھی موجود تھے۔ ہر صدر بار ایسوسی ایشن کی یہ دل کی خواہش تھی کہ سیالکوٹ آمد کے موقع پر جناب چیف جسٹس ان کے ہاں (چاہے کچھ ہی دیر کیلئے) ضرور تشریف لائیں۔ جناب چیف جسٹس نے شگفتہ انداز میں ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپکی محبتوں کی اصل حقیقت تو مجھے اس وقت معلوم ہو گی جب میں چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہو جائونگا۔ اس پر میں نے انہیںگزارش کی آپ اس قوم کے ہیرو ہیں اور ہیرو کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ آپ کو قوم کی طرف سے جو بے پایاں محبتیں حاصل ہوئیں وہ چیف جسٹس کے عہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ ظلم کے اس سنگِ گراں کو توڑنے کے سبب میسر آئیں جو عدلیہ کی حرمت مئی میں ملانے کی خواہش رکھتا تھا لیکن اس کا اپنا غرور اقتدار جناب افتخار محمد چودھری کے حرف انکار کے باعث خاک میں مل گیا۔ میں نے محترم افتخار چودھری صاحب سے کہا کہ اگر آپ اس وقت کے فوجی آمر کے سامنے بہادری سے نہ ڈٹ جاتے تو معلوم نہیں آمریت کی رات ہمارے ملک میں اور کتنی طویل ہو جاتی اور جمہوریت کی یہ صبح درخشاں جو آج ہمیں میسر ہے نہ جانے کب طلوع ہوتی۔ ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور میں نے جناب چیف جسٹس کی خدمت میں یہ بھی گزارش کی کہ جس طرح عدلیہ نے پارلیمنٹ سے جعلی ڈگری رکھنے والے ارکان اسمبلی کا گند صاف کیا ہے اسی طرح جعلی اسناد والے وکلا کیخلاف بھی موثر طور پر کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ اس سلسلہ میں بار کونسلوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور کالی بھیڑوں کا وکالت کے معزز پیشہ میں داخلہ بند کر دینا ہو گا۔ مجھے یہاں برادرم فاروق عالم انصاری کی بات یاد آ گئی کہ جب ان کا ذہین برخوردار وقاص فاروق بار ایٹ لاء کی تعلیم مکمل کرکے لندن سے پاکستان واپس آیا تو جعلی بیرسٹروں کے قصے سن سن کر پریشان والد نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنا سامان گھر میں رکھنے سے پہلے مجھے بار ایٹ لاء کی ڈگری دکھائو۔ بیٹے نے فوراً اپنے بریف کیس سے بیرسٹری کی ڈگری نکالی اور اپنے باپ کی خدمت میں پیش کر دی۔ وقاص فاروق انصاری نے اپنے والد گرامی کو بتایا کہ بیرسٹری کی جعلی ڈگری تیار کرنا ممکن نہیں مگر ان ’’بیرسٹروں‘‘ کا محاسبہ پاکستان میں ضرور کیا جانا چاہئے جو لِنکن انز کی عمارت کا صرف بیرونی منظر دیکھ کر ہی پاکستان میں واپس آنے کے بعد اپنے نام کے ساتھ بیرسٹر لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس طرح سعودی عرب میں محنت مزدوری کیلئے جانیوالے بعض پاکستانی حج کئے بغیر بھی مکہ و مدینہ کی زیارت کی بنیاد پر ہی خود کو حاجی کہلوانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری جناب چیف جسٹس کی خدمت میں درخواست تھی کہ وکالت چونکہ سچ کی تلاش میں عدلیہ کی معاونت کا نام ہے اور وکیل کا پیشہ لوگوں کو عدل و انصاف دلانا ہے اس لئے کالے کوٹوں کے دامن سے یہ داغ دھو ڈالنا چاہئے کہ ہماری صفوں میں کوئی جعلی ڈگری رکھنے والا ایڈووکیٹ بھی ہے۔جناب چیف جسٹس کی پرخلوص شخصیت کا یہ پہلو بھی ہمیں دائمی طور پر یاد رہے گا کہ ہم نے کئی بار اجازت لینا چاہی مگر وہ اپنے مہمانوں کی دلداری کیلئے ہمیں اپنے پاس سے اٹھنے ہی نہیں دے رہے تھے اور ہم سب وکلا کی کیفیت یہ تھی…؎
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر ۔۔۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

محمد آصف بھلی ....چوتھا ستون

ای پیپر دی نیشن