میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند!

Sep 12, 2013

احسان اللہ ثاقب

سابق صدر آصف علی زرداری کا پانچ سالہ عہد صدارت پاکستانی قوم کے لئے ایک بھیانک خواب کی عملی تفسیر سے کم ہرگز نہ تھا۔ ڈرائونے خواب، ڈریکولا، ویمپائر اور کئی ایسے فلمی کردار و افسانوی کردار بدقسمت پاکستانی قوم کو مختلف شکلوں میں دیکھنے کو ملے! آج قوم کے بڑے طبقے نے شاید سکھ کا سانس لیا ہے لیکن پاکستان کے روشن آسمان پر ’’کالے ستارے‘‘ کب تک اور کن کن شکلوں، عہدوں کی صورت میں مسلط رہ کر قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو اندھیروں، پستیوں، رسوائیوں، ہزیمتوں کے ’’چرکے‘‘ لگائیں گے۔ ہمیں وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ آج ایک بے لاگ تجزیہ جو تعصبات سے پاک اور سچائی پر مبنی ہو آپ کے لئے پیش ہے کئی کروڑ لوگوں کے دل کی آواز!
پاکستان کو استحکام، خودی، خودمختاری، عزت غیرت، قومی اتحاد، اندرونی خلفشار (ہمہ قسم) اندرونی و بیرونی غداروں، ملک و ملت فروشوں جیسے نازک مسائل اور اصول پسندی، قانونی و آئینی بالادستی کی ’’سیدھی راہ‘‘ کی ضرورت تھی۔ یہ قومی مفادات ایسے ہیں جن پر اقتدار قربان بھی ہو جائیں تو بڑی بات نہیں لیکن ’’عہدِ زرداری‘‘ میں آئین، قانون، میرٹ، ضابطے، اصول پسندی، قومی خزانے کے تحفظ، قومی سلامتی و خود مختاری کے اہم ترین معاملات پر جس بددیانتی، بداصولی، غلط سوچ و راہ عمل، غلط سمت، مفاد پرستی، اقتدار کے بچائو کے لئے قومی سلامتی کے معاملات اور عوام کے جان مال عزت آبرو، ضروریات زندگی سے بے اعتنائی و لاپروائی تسلسل سے برتی گئی اس ’’غلط سوچ‘‘ نے اقتدار کے نشے میں پاکستان کی بنیادیں ہلا ڈالیں!! یہ ہی بہت کڑوا سچ ہے اور تلخ حقیقت! اس دعوے کا ثبوت میرے پاس یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے ’’زرداری برانڈ جمہوریت‘‘ سے پاکستان کا بیڑہ غرق ہوتے دیکھ کر 2013ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کو صرف ’’صوبہ سندھ‘‘ کی علاقائی جماعت بناتے ہوئے زرداری، گیلانی، راجہ، پرویز الٰہی، سرکار کے ’’پرخچے‘‘ اپنے ووٹوں سے اڑا ڈالے! اگر ’’زرداری عہد میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے ماتھے پر ’’کلنک کے ٹیکے‘‘ لگانے اور غریبوں کو زندہ درگور کرکے ’’اپنے حواریوں‘‘ کو اور خود اپنی بیرون ملک اربوں کی مبینہ طور پر کرپشن کی سلطنت اور پراپرٹی کو بچانے اور اضافہ کرنے کا شیطانی کھیل ڈنکے کی چوٹ پر، نہ کھیلا جاتا تو آج پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتیں عوام کے ہاتھوں نہ ٹھکرائی جاتیں!
المیہ یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور خادم پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے سرکاری الوداعی (ظہرانہ) کے موقع پر اپنے ’’خیالات عالیہ‘‘ اور شرکت سے قوم کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف اپنے جلسوں میں ’’علی بابا چالیس چور‘‘ ’’زربابا‘‘ ’’قومی لٹیرے‘‘ سے ’’پیٹ پھاڑ کر قومی خزانے کی پائی پائی نکلوائیں گے‘‘ ’’میرا نام بھی شہباز شریف نہیں‘‘ اگر ’’لٹکا‘‘ نہ دوں!! جیسے غصیلے اور انتہائی تلخ لہجے کے جو ’’میزائل‘‘ زرداری پر ’’فائر‘‘ کرتے نہیں تھکتے تھے وہ اب ان کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملانے پر کیوں مجبور ہوئے؟! 
ہمارے قومی قائدین جوش خطابت، اپنی فطرت، ذاتی پسند و ناپسند، سیاسی مخالفت میں اپنی زبانوں پر قابو رکھنے میں ناکام دیکھے گئے ہیں پھر ’’تماشا‘‘ تو بننا ہوتا ہے! آزاد میڈیا اپنے ’’ریکارڈ‘‘ سے نفرت و انتقام کے بیانات نکال کر تازہ تعریفوں کے پل باندھنے سے ملا کر 5 منٹ چلا دیں تو ’’قومی رہنما‘‘ کا جو چہرہ قوم کے سامنے آتا ہے وہ صرف ’’سنا‘‘ جا سکتا ہے کہ عوامی ’’تبّرے‘‘ قابل اشاعت نہیں۔ آخر ہمارے ’’قومی رہنما‘‘ اپنی زبانوں کو محتاط انداز میں استعمال کرنے میں کیوں ناکام ہوتے ہیں؟ نوجوانوں کی ’’اصلاح‘‘ ایسے ہوتی ہے؟ بہرحال میاں محمد نواز شریف نے آصف علی زرداری کو جمہوری انداز سے رخصت کرکے اچھی سرکاری روایت ڈالی ہے لیکن وزیراعظم اتنی تعریفیں کرنے کے بعد، میگا کرپشن سکینڈلز کے ’’سرے‘‘ تک کس طرح پہنچیں گے۔ یہ ’’شریف احتساب‘‘ کی عملی صورت گری تک واضح نہیں! اگر آصف علی زرداری، پچاس ایک ڈی، چیئرمین، وزرائ، وزیراعظم، مشیران مملکت وغیرہ وغیرہ پاکستان کے قومی خزانے کو ’’کک بیکس، کرپشن، رشوت، مالی بے ضابطگی، اربوں کے غلط ٹھیکوں کے غیر قانونی اجرائ، زمینوں، پٹرولیم تلاش کے لائسنسوں، ہزاروں کنال کی رہائشی سکیموں، پلاٹ الاٹمنٹ، بھرتیوں، تعیناتیوں میں کروڑوں کے ’’ریٹ‘‘ اور کئی تیل، گیس، ریلوے، پی آئی اے، پانی و بجلی، معدنیات کے لیز وغیرہ کے مبینہ طور پر ملزم اور بعض صورتوں میں مجرم ہوئے تو پھر ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ’’کہاں کھڑے‘‘ ہوں گے؟؟ اگر صدر آصف علی زرداری کو اتنی صفیات عالیہ کا حامل پایا تو پھر کئی سال ’’زرداری، حکمران، چیئرمین پیپلز پارٹی‘‘ کو میڈیا، اخبارات، ٹی وی چینل پر اپنی انتخابی مہم میں ’’برائی کا سرغنہ‘‘ بنا کر کیوں دکھایا؟؟ قوم حیران ہے! بادشاہ سے کون پوچھ سکتا ہے کہ پہلے انڈہ کیوں دیا اب بچہ کیوں دیا؟؟ بادشاہ کی مرضی!!
سابق صدر آصف علی زرداری نے 2008ء سے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے آپ کو ’’بادشاہ گر‘‘ بنایا اور اپنے احکامات (قانونی و غیر قانونی) بجا لانے والے وزیراعظم گیلانی، راجہ رینٹل، پرویز الٰہی کو ہاتھوں پر نچایا!! تمام اہم ترین عالمی معاملات کانفرنسوں، نازک سٹرٹیجک ڈائیلاگ، امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، جرمنی وغیرہ جیسے ممالک سے ’’مذاکرات‘‘ وہ کرتے تھے، وزیراعظم کوئی بھی ہو اسے زحمت نہیں دیتے تھے اپنی ’’اوقات‘‘ میں رکھتے۔ اس طرح پارلیمنٹ، پارٹی، سنٹرل ورکنگ کمیٹی، صوبہ سندھ کی حکومت اور سینٹ پر اپنا ’’قبضہ‘‘ رکھ کر صدارتی اختیارات، آئینی کتاب میں وزیراعظم ’’مفلوج‘‘ کو منتقل کرکے کریڈٹ لے لیا کہ صدر نے اختیارات چھوڑ دئیے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرنا، سوئس حکام کو ’’خط‘‘ لکھنا (اپنے اربوں روپے بچانے کیلئے) ججوں کی تقرری‘بیوروکریسی 22، ایم ون، ایم ٹو گریڈوں میں نکمے، نااہل، میٹر کے خلاف تقررنامے، لوٹ مار، خود کھائو، ہمیں بھی پہنچائو کلچر کو فروغ، بھارتی فلموں، ڈراموں کی یلغار کے اجازت نامے، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو روکنے میں ناکامی، طالبائزیشن فیکٹر، فرقہ واریت روکنے میں ناکامی، یہ سب ’’زرداری عہد‘‘ کے ستم ہیں۔

مزیدخبریں