ایوان صدر میں آصف زرداری نے 5 سال پورے کر لیے ہیں ان 5 سالوں کے دوران انہوں نے جو کا م کیے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ دستور کی اصل شکل میں بحالی، ایران گیس و آئل معاہدے، چین سے بہتر تعلقات کار کے لیے حکمت عملی بنائی جبکہ غلطی ان سے یہ ہوئی کہ لاہور ہائی کورٹ میں صدر کے دو عہدوں کے حوالے سے زیر سماعت کیس میں ان کے وکیل نے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کو مشاورت کلب کا نام دیا اور وہ خاموش رہے اس کے علاوہ ان 5 سالوں کے دوران پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیالوں کا ایوان صدر میں داخلہ بند تھا کسی جیالے کو ایوان صدر میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی اور ضیاالحق کے گھر کا ملازم رہنے والا شخص ان کی آنکھوں کا تارا بنا رہا اور جیل کے ساتھی ایوان صدر میں اہم رہے اور جیل کے سا تھی بلٹ پروف گاڑیاں لے کر پھرتے رہے جبکہ اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی بُلٹ پروف گاڑی مانگتے مانگتے قتل ہو گئے مگر بلٹ پروف گاڑی نہ مل سکی۔ 5 سالوں کے دوران بی بی کے قاتلوں کو سزا نہ مل سکی۔ 5 سالوں کے دوران ایوان صدر میں جس انداز میں سیاست ہوتی رہی اس سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہو گیا ہے جبکہ نظریات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ضیاالحق کے ساتھ مقابلہ کیا کوڑے کھائے اور ان پر فخر کیا اب پیپلز پارٹی پر مشکل وقت آیا تو آصف علی زرداری کے ساتھ صرف ضیاالحق کے گھریلو ملازم ہی کھڑے ہوں گے۔ آصف زرداری نے نظریاتی سیاست کو دفن کر دیا ہے ۔ آ صف زرداری کی حکومت کی مفاہمت کی پالیسی کے طفیل اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کو اقتدار میں شریک ہونے کا موقع فراہم کیا گیا جس سے پہلی دفعہ جمہوری حکومت نے 5 سالہ آئینی مدت پوری کی۔ اسی دور میں صدر پاکستان آصف زرداری نے خود اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دیدیے جس کے سبب جمہوریت مستحکم ہوئی اور اسے دوام ملا۔ پیپلز پارٹی نے آمروں کے ہاتھوں مسخ ہونے والے سیاسی نظام کو آئین اور نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ کر کے نیا روپ دیدیا متفقہ قومی مالی ایوارڈ پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کی بڑی کامیابی ہے اس سے صوبوں کے مالی وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس پر صوبوں اور وفاق کے درمیان کشیدگی ختم ہو گئی۔ خیبر پی کے کو شناخت دیکر حکومت نے پختونوں کا احساس محرومی ختم کرنے کے ساتھ پختونستان کا مسئلہ بھی دفن کر دیا۔ بلوچستان کے عوام کی سیاسی اور معاشی محرومیوں کو ختم کرنے کیلئے آغاز حقوق بلوچستان پیکج دیا۔ گلگت کو خصوصی اختیارات کے ذریعے وہاں کے عوام کو اپنے فیصلے وفاق کے ایک سرکاری افسر کی بجائے اپنی نمائندہ حکومت کے ذریعے کرنے کا اختیار مل گیا۔ فاٹا میں ایف سی آر کے قوانین میں ترامیم کر کے ان کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق کیا گیا ہے اس کے علاوہ فاٹا میں پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے نفاذ سے ملک کی تمام جماعتوں کو سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق مل گیا ہے۔ خواتین کی فلاح اور انکے خلاف تشدد کو روکنے کیلئے مؤثر قانون سازی کی گئی ہے جس سے پاکستان کی تقریباً نصف آبادی کو ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار نبھانے کا موقع ملا ہے۔ اقلیتوں کے لیے5 فیصد سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ کے ساتھ پارلیمینٹ میں ان کو آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دینے کیلئے قانون سازی کی۔ آصف زرداری کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے عالمی دبائو کے باوجود ایران گیس پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ جمہوریہ چین کے ساتھ دیرینہ روابط کو مضبوط بنایا۔ گوادر رپورٹ چین کے حوالے کرنے کا جرأت مندانہ اقدام اٹھایا جو پورے خطے کے بہترین مفاد میں دوررس نتائج کا حامل اور بڑھتی ہوئی بیرونی مداخلت روکنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ تیل، گیس، سونے، تانبے، معدنیات کے نئے ذخائر کی درآمد سمیت قومی و بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے‘ 14 برس سے زیر التوا این ایف سی ایوارڈ کا اجرائ‘ 18 ویں‘ 19 ویں اور 20 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اتفاق رائے سے 1973ء کے متفقہ آئین کی بحالی‘ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت اختیارات کو پارلیمنٹ کی منتقلی‘ مسلح افواج سمیت تمام قومی اداروں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنانا‘ عدلیہ‘ ججز کی بحالی‘ آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی‘ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 5 کروڑ مستحقین کی آبرو مندانہ مالی اعانت‘ وسیلہ حق اور وسیلہ روزگار سکیموں کے ذریعے کم و محدود آمدن والے لاکھوں گھرانوں کی خود کفالت سکیم‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں‘ مراعات اور پنشنز میں اضافہ‘ سابق دور میں نکالے گئے ہزاروں سرکاری ملازمین کی بحالی‘ کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی ان کے عظیم کارنامے ہیں اقلیتوں کیلئے سینیٹ اور اسمبلیوں میں مختص سیٹوں میں اضافہ‘ تاریخ میں پہلی بار وزارت اقلیتی امور کا قیام‘ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کیلئے 5 فیصد کوٹہ مختص کرنا‘ اقلیتی تہوار سرکاری سطح پر منانے کا فیصلہ کیا۔ آزادانہ‘ منصفانہ عام انتخابات یقینی بنانے کی غرض سے اپوزیشن کے نامزد کردہ چیف الیکشن کمیشن کا تقرر کیا۔ خواتین کو عوامی نمائندگی دی اور ہر شعبہ میں آگے بڑھنے کے زیادہ سے زیادہ موقعے فراہم کئے۔ 1973ء کے آئین کے مطابق صوبائی خود مختاری دی۔ وفاق کے آدھے سے زائد محکمے صوبوں کو منتقل کئے۔ انتقامی سیاست کا خاتمہ کیا اور نئے مفاہمانہ سیاسی کلچر کی داغ بیل ڈالی جس کی وجہ سے 5 برس میں ایک بھی سیاسی مقدمہ یا سیاسی قیدی نہیں تھا۔