کرہ ارض پرپانی کی قلت!

کرہ ارض پرپانی کی قلت!

آج کل پاکستان کے کونے کونے میں پانی کی شدید قلت موجود ہے۔ موسم برسات کی بارش عارضی سلسلہ ہوا کرتا ہے یہ قدرت کا کمال ہے کہ برسات میں پانی کی فراوانی ہوتی ہے۔ برسات کے ختم ہوتے ہی پانی پورے ملک میں نایاب ہونا شروع ہو جاتا ہے دریا اور ندی نالوں سے پانی آنا بند ہو جاتا ہے۔ پانی میں جانداروں کی زندگی ہوتی ہے۔ پانی نہ ہو تو انسان حیوان پرند‘ چرند کی زندگی کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا۔ چاند پر انسان پہنچ چکا ہے وہ چاند پر پانی کی موجودگی کی تلاش میں لگا ہوا ہے اگر وہاں پانی کے آثار مل گئے تو پھر چاند پر انسانی آبادیوں کا مسئلہ بھی زیرغور آئے گا۔ چاند کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی پانی کی تلاش کا کام شروع ہے اگر وہاں پر پانی کے ذخائر موجود ہیں تو پھر وہاں پر انسان آباد ہوں گے یہ ایک انتہائی مکمل موضوع اور کام ہے فی الحال تو ہمیں کرہ ارض پر پانی کی قلت پر قابو پانا ہے۔
 دنیا میں پانی بہت ہے ضرورت ا س بات کی ہے کہ پانی کو محفوظ رکھا جائے اور اس کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ ہمارا بہت سا پانی سمندر میں چلا جاتا ہے اور اس پانی کو روکا جا سکتا ہے تاکہ ضرورت کے وقت کام میں لایا جا سکے۔
بھارت ہمارے پانی کو روکنے میں لگا ہوا ہے بہت حد تک بھارت ہمارے پانی کو اپنے استعمال میں لا رہاہے۔ پانی کا گہرا تعلق سر زمین کشمیر سے ہے۔ بھارت کشمیر میں چھوٹے بڑے ہر قسم کے ڈیمز بنانے میں مصروف ہے اور اگر بھارت کو اس کی اس کاوش میں نہ روکا گیا تو مستقبل قریب میں پانی کا قحط پاکستان میں پیدا ہوگا اب بھی پاکستان میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں پر پانی کی قلت موجود ہے‘ ریاست جموں و کشمیر بھارتی غلامی سے آزاد ہو گی تو اس کے ساتھ ہی پاکستان کی طرف پانی کا بہاﺅ زیادہ ہو گا آزادی کی صورت میں کشمیر میں پانی کو روک کر پاکستان کو اس سے محروم کرنے والا وہاں کوئی بھی نہ ہو گا۔ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خودارادیت دینے کا وعدہ ساری دنیا نے ان سے کر رکھا ہے۔ پاکستان ایسی قوتوں میں سرفہرست اس میں پاکستان کا قومی مفاد ہے کہ کشمیر آزاد ہو تاکہ وہاں کے لوگ ہی خود اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکیں۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ایسا کام ہے جو ابھی تک جھگڑے کی بناءپر التواءمیںپڑا ہوا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر تو خود پاکستان کے اپنے دائرہ اختیار میں ہے یہ سراسر پاکستان کے حکمرانوں کی نا اہلی ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم جیسے اہم مسئلے کو صوبوں کی مرضی کے مطابق حل نہ کر سکے۔ سب سے زیادہ تو صوبہ سندھ کے لوگ اس ڈیم کی تعمیر پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے دریائے سندھ کے پانی سے محروم ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کا آسان ترین حل یہ ہے کہ ڈیم کی تعمیر کا کام شروع سے آخرتک صوبہ سندھ کے حکمرانوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ ایسا کرنے سے وہ آسانی سے اپنی ہر قسم کی مشکلات پر قابو پا سکیں گے۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا مسئلہ ہر گز نہ ہے جس کا حل موجود نہ ہو۔ اگر وہ ڈیم کے نام پر اعتراض کرتے ہیں تو وہ خود اپنی مرضی سے اس ڈیم کا نام رکھ لیں۔ فیڈریشن کی کسی بھی کائی کواس پر اعتراض نہ ہوگا۔ پانی کی تقسیم کا کام بھی وہ اپنے ہاتھوں میں رکھیں وہ پانی ضرورت کے مطابق ڈیم کا پنی استعمال کریں یہ ڈیم تو بارش اور سیلاب کے پانی کوضائع ہونے سے بچائے گا اوسط کے حساب سے جس قدر بھی پانی سرزمین سندھ سے گزرتا ہے وہ سارا سال سندھ سے گزرتا چلا جائے گا۔ اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سوال پیدا نہ ہو گا کیونکہ ڈیم کی انتظامیہ سندھ کے ماہرین آب پر مشتمل ہو گی۔
میری سوچ کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کے سندھی لوگوں کو ہو گا سندھ کے سیم زدہ علاقوں میں بھی وہاں کے لوگ فالتو پانی حاصل کر سکیں گے۔ سب سے زیادہ خوشحالی کا حصہ بھی سندھ کے پاکستانی لوگ حاصل کر سکیں گے۔ اپنے حصے کی وہ بجلی بھی حاصل کر سکیں گے۔ مجموعی طور پر سارا پاکستان ڈیم کی تعمیر سے خوشحال ہو گا لوگوں کو روزگار مل سکے گا۔ قومی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ پاکستان بجلی کے ضمن میں خود کفیل ہو کر اس کو ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ جو بھی پاکستانی اس ڈیم کو غیر ضروری مخالفت میں لگے ہوئے ہیں وہ ذرا میرپور آزاد کشمیر کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ وہ لوگ منگلہ ڈیم کی وجہ سے کس قدر خوشحال ہو چکے ہیں۔ دنیا کا ایک انتہائی اور جدید شہر نیومیرپور سامنے والی پہاڑیوں پر آباد ہو چکا ہے بہر حال کالا باغ ویلی کے لوگ جو اس ڈیم سے متاثر ہوں گے ان کوتواس ڈیم کی تعمیر پر کسی قسم کا اعتراض نہ ہے وہ لوگ خوش ہیں کہ ان کو روزگار کے مواقع گھر بیٹھے بٹھائے مل جائیں گے وہ اپنی اراضیات کی قیمت وصول کریں گے ان کو باعزت طور پر ساتھ والی پہاڑیوں پر آباد کیا جائے گا۔ تمام علاقے کے لوگوں کو حکومت مفت بجلی دینے کا بھی اعلان کرے۔
 اسی طرح خیبر پختون خواہ کے لوگوں کے اعتراضات کو بھی ایک ایک کر کے دور کیا جاسکتا ہے نوشہرہ شہر تک ڈیم کے پانی کے جانے کا ہرگز کبھی سوال پیدا نہ ہوگا۔ وادی پشاور بہت اونچائی پر واقع ہے۔ البتہ ڈیم کی مناسب اونچائی سے زمین کو ڈیم سے دور رکھا جا سکتا ہے۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک جوخیبر پختون خواہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے زبردست حامی ہیں۔ ڈیم کی تعمیر میں ان کے وسیع تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ڈیم کی تعمیر کا کام بھی ان کے قیمتی مشوروں سے مکمل کیا جائے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں کس قدر دلچسپی رکھتے ہیں؟۔ یہ ایک عظیم قومی منصوبہ ہے اس کو قومی سطح پر ہی دیکھا اور پرکھا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن