اصولی طور پر یہ درست ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی سیاسی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ ملک کو اندرون اور بیرون سے کیا خطرات اور چیلنجز درپیش ہیں۔ اس حوالے سے براہ راست سیاسی جماعتوں کے پاس فراہمی معلومات کا نظام نہیںہوتا۔ یہ کام انٹیلی جنس ادارے ہی سرانجام دیتے ہیں البتہ ان معلومات کی روشنی میں سیاسی قیادت فیصلے کرتی ہے دنیا میں ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن عمل کی دنیا میں ایسا آج مفقود ہے۔ ہمارے بعض قلم کار اور دانشور بھارت کو بار بار حوالے کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں سول حکومت ہی سلامتی کے سارے فیصلے کرتی ہے فوج اور ایجنسیوں کا پالیسی سازی میں کوئی کردار نہیں ہے جو ایک فکر ی مغالطہ ہے نجم سیٹھی نے کشمیر کا حوالہ بھی دیا کہ وہاں حتمی اتھارٹی سول حکومت اور ادارے اسکے مطیع ہیں۔ حالانکہ حقائق اس کی نفی کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں فوج کی Deployment سے لے کر کالے قوانین تک سارے اقدامات کا اہتمام وہاں فوج اور ایجنسیوں ہی کی تحریک پر ہوتے ہیں جس کی تازہ مثال ممبئی پارلیمنٹ پر حملے کے حوالے سے حالیہ وزارت داخلہ کے افسر اور ممبئی کے انکشافات سے ہو چکا ہے کہ جس کے نتیجے میں فوج پارلیمنٹ POTA جیسا قانون پاس کرانا چاہتی تھی تاکہ اسے کیچ اینڈ کل کے وسیع اختیارات حاصل ہوں جو انہوں نے حاصل کر لئے یہ ممکن نہیں کہ اتنی بڑی کارروائی سول اتھارٹیز کی بے خبری میں کی گئی ہو اس لئے کہ اس طرح کے دیگر آپریشن اتھارٹیزکی آشیر باد ہی سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک مثال مقبوضہ کشمیر میں AFSPA کے حوالے سے بھی ہے۔ جس کے تحت عام سپاہی کو قتل عام کا کھلا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ جس کا بھارتی فوج بے دریغ استعمال کر رہی ہے عمر عبداللہ نے گذشتہ انتخابات میں یہ نعرہ دیا تھا کہ کامیابی کے بعد اس کی حکومت ان قوانین ختم کرے گی۔ اپنے موقف کی تائید میں اس نے کٹھ پتلی اسمبلی سے قرارداد بھی پاس کروائی لیکن دہلی کے ایوانوں میں اس کی کوئی شنوائی نہ ہو سکی‘ اس لئے بھارتی فوجی قیادت اور ایجنسیوں نے نے اسے ویٹو کر دیا۔ قبل ازیں نوے کی دہائی میں مرکزی حکومت کی آشیر باد سے ڈاکٹر کرن سنگھ کی سربراہی میں ایک اناٹومی کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے مقبوضہ کشمیر میں زیادہ اختیار حکومت ‘ فوج اور ایجنسیوں کے اختیارات کو محدود کرنے کی سفارشات پیش کیں لیکن ان سفارشات کو بھی ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا تھا۔
اس طرح میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی میں حریت کانفرنس کا ایک وفد من موہن سنگھ سے مذاکرات میں مرکزی حکومت کی اس یقین دہانی کی بنیاد پر شریک ہوا کہ کچھ کالے قوانین ختم کئے جائیں گے اور ہزاروں قیدیوں میں سے بھی قابل لحاظ تعداد کو رہا کیا جائے گا تاکہ کم از کم مذاکرات کا بھرم رہ سکے۔لیکن منموہن سنگھ کی مرکزی حکومت وہاں بھی بے بس نظر آئی۔ فوج نے قطعاً کسی رعایت سے اتفاق نہ کیا جس کے نتیجہ میں نہ صرف مذاکرات کا پراسیس ختم ہوگیا بلکہ حریت قائدین کی ساکھ بھی خراب ہوئی اور اس مسئلہ پر حریت دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی قبل ازیں دو ہزار میں حزب المجاہدین نے سیز فائر کرتے ہوئے مذاکرات کے پراسیس کو آگے بڑھانے کے لئے اتمام حجت کیا۔ واجپائی نے گرم جوشی سے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا اور سیکرٹری داخلہ کی سطح پر مذاکرات کا عمل شروع ہوا لیکن ایک ہفتہ کے اندر اندر پوری قیادت اور ایجنسیوں کے دباﺅ پر یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا اور بالآخر حزب مجاہدین کو بھارتی سرد مہری کے روئیے کی وجہ سے پیش کش واپس لینا پڑی۔ یوں درجنوں اور بھی مثالیں یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں کہ قومی سلامتی کے امور میں بھارتی سیاسی قیادت اس وقت بے بس نظر آئی جب فوج معاملات میں ویٹوکر دیتی۔ لہٰذا ہمارے وہ دانشور جو اس حوالے سے بھارت کے گن گاتے ہوئے اخبارات کے صفحات سیاہ کر رہے ہیں۔ یہ تو ان سارے حقائق سے ناآشنا ہیں یا وہ جان بوجھ کر بھارت کے مکروہ چہرے کا میک اپ کرتے ہوئے اپنے دفاعی اداروں کو بہرصورت زیر کرنے کی مہم چلا رہے ہیں جوکسی طور پر حب الوطنی نہیں ہے۔
یہاں چلتے چلتے مادر جمہوریت برطانیہ کا بھی ایک واقعہ سن لیجئے جو مجھ سے ایک پاکستانی نثراد برطانوی ممبر پارلیمنٹ نے خود بیان کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ جنرل مشرف کے فوجی انقلاب کے بعد جب امریکہ اور یورپ کا فوجی حکومت کے ساتھ سرد مہری کا رویہ تھا بلکہ ایک سوشل بائیکاٹ کی سی کیفیت تھی پاکستان کے دورے کے موقع پر مجھ سے کہا گیا کہ آپ برطانوی حکومت سے معاملات استوار کرنے میں کردار ادا کریں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے برطانوی وزیر خارجہ سے رابطہ کر کے ملاقات کا وقت بھی طے کر دیا اور مشرف حکومت کے ایک سینئر اہلکار برطانیہ بھی گئے۔ عین میٹنگ سے ایک روز قبل مجھے برطانوی خفیہ ایجنسی کے سینئر ذمہ دار کی کال موصول ہوئی جس میں میرے اس اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ میٹنگ ہمارے این او سی کے بغیر نہیں ہو سکے گی۔ چنانچہ وہ میٹنگ نہ ہو سکی جس کی مجھے اور برطانوی وزیر خارجہ دونوں کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ برطانیہ ہی کی دوسری مثال لیبر پارٹی کی ہے۔ جس نے نوے کی دہائی میں کشمیریوں کی موثر جنگ کی وجہ سے اپنے منشور میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوںاور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران میں بھی برطانوی سیاستدان اپنے وعدے کو دہراتے رہے لیکن حکومت نے آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے دباﺅپر وہ اپنے منشور کے اس اہم نکتہ سے تقریباً منحرف ہو گئے۔ یا سکوت اختیار کر لیا۔ اسی طرح مسٹر بارک اوباما نے اپنی پہلی انتخابی مہم میں وعدہ کیا کہ برسر اقتدار آنے کے بعد وہ کشمیر پر خصوصی نمائندے کا تقرر کریں گے لیکن بعد میں وہ اپنا وعدہ ایفا نہ کر سکے سی آئی اے کی اپروچ مختلف سمت میں تھی۔
یہ چند مثالیں یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ قومی سلامتی کے امور میں پالیسی سازی میں بڑے بڑے جمہوری ممالک میں بھی دفاعی ادارے ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اس لئے کہ معلومات کی بہم رسانی کا نظام انہی کے پاس ہے۔ سیاسی قیادت بھی داخلہ یا خارجی سلامتی کے معاملات میں انہی کی آنکھ سے امور دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے۔
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے یہاں بھی یقیناً اس امر کی اصلاح ہونی چاہئے بار بار فوجی حکومت کی وجہ سے ملک کے داخلی نظام میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار نچلی سطح پر دخیل ہو گیا ہے جسے ختم ہونا چاہئے کہ ان کے کردار نے یہاں ہمیشہ ایسی کرپٹ اور دو نمبر لیڈر شپ کو پروان چڑھایا جس کے نتیجہ میںدفاعی نظام سے وابستہ تمام قومی ادارے قومی سلامتی کودرپیش چیلنجز سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ اس سلسلے میں دانشمندی سے یہی حکمت عملی تشکیل دی جائے جس کے نتیجہ میں معاملات کا رخ بھی درست سمت میں استوار ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ سارے اقدامات پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ بھی نہ بنیں۔ اس لئے کہ ساری کمزوریوں اور بے اعتدالیوں کے باوجود ایٹمی پاکستان کی افواج اور ایجنسیوں امریکہ بھارت اور اسرائیل سمیت پاکستان کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہیں۔ اور انہیں بدنام کرنے کے لئے عالمی سطح پر ایک مہم جاری ہے جس کے نتیجے میں ناکردہ گناہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ جس کا انکشاف بمبئی حملوں کے حوالے سے ہو چکا ہے۔ ان کی پروردہ این جی اوز دانشوروں کا ایک پورا لشکر نظریہ پاکستان‘ پاکستان کے اسلامی تشخص اور افواج پاکستان کو تحلیل کرنے کے لئے حملہ آور ہو چکا ہے۔ ان کے عزائم کا ادراک و تدارک کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس دیہاتی کی طرح اشتعال میں ایسے اقدامات سے گریز کرنے کی بھی ضرورت ہے جس نے گھر سے چوہے بھگانے کے لئے گھر ہی کو آگ لگا دی تھی۔
جمہوری ممالک اور قومی سلامتی کے امور
جمہوری ممالک اور قومی سلامتی کے امور
Sep 12, 2013