مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ صورت احوال ہی کچھ ایسی تھی کہ یوں لگتا تھا کہ واقعی شہر کو سیلاب لے گیا ہو، ساون کی بارش بھادوں میں کچھ اس طرح سے برسی کہ پورا شہر ڈوب گیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ انتظامیہ کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وزیراعلی شہباز شریف حسب سابق ’’لانگ شوز‘‘ پہنے گہرے پانی میں کھڑے نظر آئے۔ ہر چند انہوں نے متعلقہ حکام کو پانی کے جلد از جلد نکاسی کی تاکید کی لیکن پانی تھا کہ اپنی مرضی سے رخصت ہوا۔ وزیراعلی اگرچہ ہر وقت اور بروقت ’’دستیاب‘‘ ہوتے ہیں لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات۔ افسر شاہی اور سرخ فیتہ، آڑے آ جاتے ہیں اور فوری حل طلب معاملات کو طویل راستوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ’’حکام بالا‘‘، وزیراعلی کی ڈانٹ ڈپٹ کو معمول کی کارروائی تصور کرتے ہوئے ہوا میں اڑا دیتے ہیں گزشتہ دنوں میں، ایک دوست کے ہمراہ حکومت پنجاب کے ایک اہم ادارے کے سربراہ سے ملا تو موصوف چائے کے کپ پر ’’کھل گئے اور اپنی انگشت شہادت بلند کرکے باقاعدہ ’’مخولیہ‘‘ تقریر سنانے لگے، قطع نظر اس بات کے کہ اس وقت پورے پنجاب کو شدید سیلاب نے اپنی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہماری افسر شاہی ’’ہاسے مخول‘‘ میں مشغول ہے۔ سیلاب کی ان تباہ کاریوں میں محض فوج ہے جو دل و جان سے اپنا فرض ادا کر رہی ہے حالانکہ وہ ضرب عضب میں بھی مصروف عمل ہے۔ حافظ سعید کی تنظیم اور جماعت اسلامی بھی اس ضمن میں مقدور بھر مساعی کر رہی ہیں۔ حکومتی شخصیات ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے، کہ مصداق صرف فضائی جائزوں اور جعلی کیمپوں میں کھڑے ہو کر شوق خطابت پورا کرنے تک محدود ہو کے رہ گئی ہیں۔ پرویز مشرف نے زلزلہ زدگان اور دیگر متاثرین کی بحالی کیلئے ایک ادارہ بنایا تھا جس کا کام، قدرتی آفات کے نتیجے میں رونما ہونیوالی تباہ کاریوں پر قابو پانا تھا۔ خدا جانے اس وقت یہ حکومتی ادارہ عملاً کیا کر رہا ہے۔ اس قدرتی آفت کو ماہرین بجا طور پر، بھارتی ’’آبی حملے‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں کہ بھارت جب چاہتا ہے ہمارا پانی روک کر ہمیں یہاں مارنے پر تل جاتا ہے اور جب چاہتا ہے تباہ کن سیلابی پانی ہماری جانب دھکیل دیتا ہے اور اس موقع پر ’’مودی‘‘ کا جان لیوا مذاق ملاحظہ کریں کہ وہ ہماری طرف ’’دست تعاون‘‘ بھی دراز کر رہا ہے۔ اس نازک وقت پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری قوم یکسو ہو کر فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائے۔ مزید برآں عمران خان اور طاہر القادری کو بھی فی الحال اپنے دھرنے مؤخر کر دینے چاہئیں اور اپنی پوری توجہ سیلاب زدگان کی مشکلات کو کم کرنے کی طرف مبذول کرنی چاہئے۔ ہر چند کہ یہ دھرنے اپنی ’’آب و تاب‘‘ سے کافی حد تک محروم ہو چکے ہیں تاہم حکومت کو، ہنوز انہوں نے ’’اینڈ‘‘ سے انگیج کر رکھا ہے جب کہ دیگر تمام تر ’’امور مملکت‘‘ حکومت ’’دوسرے اینڈ‘‘ سے نمٹا رہی ہے۔ لایعنی ’’مذاکرات‘‘ اپنی جگہ لیکن جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی کوششوں سے ’’تنازعات‘‘ کی حدت اور شدت میں قدرے کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ ’’باغی‘‘ نامی گھر کے بھیدی نے اگرجہ لنکا ڈھا دی ہے تاہم مکمل ’’صلح صفائی‘‘ کے راستے ابھی تک مسدود اور امکانات محدود ہیں، شاید ابھی تک ’’شیڈول‘‘ کا کچھ باقی ہے۔ حالانکہ بظاہر ’’پروگرام‘‘ میں تبدیلی آ چکی دکھائی دیتی ہے اور ’’روڈ میپ‘‘ سمیٹا جا چکا ہے، لیکن لگتا ہے کہ ’’ملاکھڑا‘‘ ابھی کچھ دیر اور چلے گا۔ حرف آخر کے طور پر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو خراج تحسین پیش کرنا مقصود ہے کہ انہوں نے فریقین کے درمیان مکالمے کو نتیجہ خیز بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ ویسے ان دھرنوں کا ایک مثبت نتیجہ تو قبل ازیں سامنے آ ہی چکا ہے کہ ان دھرنوں نے نچلے اور پسے ہوئے طبقات میں انکے حقوق کے حوالے سے خوابیدہ احساس کو بیدار کر دیا ہے، اور اس کے مابعد اثرات تو بتدریج سامنے آتے ہی رہیں گے تاہم فی الوقت دھرنا قائدین، اپوزیشن اور حکومت کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کام کرنا چاہئے کہ…؎
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
شہر کو سیلاب لے گیا
Sep 12, 2014