ژو کے نقشِ قدم منزل پر لے جائیں گے!

’’پتیلے سے اُبل کر نیچے گرتے پانی کی طرح سیلاب کا پانی مسلسل ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اور ہر جانب پھیل کر تباہی مچاتا چلا جارہا ہے، سیلاب کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ پہاڑیوں کی چوٹیاں اس میں ڈوب چکی ہیں، میرے سامنے سیلاب کی مسلسل بلند ہوتی سطح سے محسوس ہورہا ہے کہ جلد ہی سیلابی پانی آسمان کو چھولے گا‘‘۔ یہ الفاظ 2324قبل مسیح میں پیدا ہونیوالے چینی شہنشاہ ’’یاعو‘‘ کے ہیں۔ یاعوچین کے پانچ تاریخ ساز اور عظیم مانے جانیوالے شہنشاہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یاعو کا دور یوں تو انتہائی پر امن تھا، لیکن اسکی ساری زندگی قدرتی آفات کیخلاف لڑتے گزر گئی، ان قدرتی آفات میں سب سے بڑی آفت سیلاب کی صورت میں نمودار ہوتی اور چینی حکمرانوں کا ’’دھڑن تختہ‘‘ کرکے گزر جاتی۔یاعو کے دور میں چینی تاریخ کے اسی طرح کے ایک خوفناک سیلاب میںایک اندازے کیمطابق دریائے زرد سے ملحقہ اور وادی یانغتسی کا پینتیس لاکھ مربع کلومیٹر کا رقبہ سیلابی پانی کی نذر ہوگیاتھا۔ ان سیلابوں سے نمٹنے کیلئے یاعو نے اپنے خاندان کے ایک ہونہار شہزادے ’’گْن‘‘ کو ذمہ داری تفویض کی۔ اساطیر کیمطابق گْن نے سیلابوں کے تباہ کن اثرات پر قابو پانے کیلئے معجزانہ طور پر پھیلتی زمین(ژیرانگ) کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ گْن نے ژیرانگ کی مدد سے حفاظتی بند اور مضبوط پشتے تعمیر کرائے، لیکن اسکے باوجود سیلابوں کی تباہ کاریوں پر قابو نہ پایا جاسکا۔ یاعو کے داماد اور نئے شہنشاہ ’’شْن‘‘ نے گْن کے بعد سیلابوں سے نمٹنے کی ذمہ داری گْن کے بیٹے ’’ژو‘‘کو تفویض کردی، روایات کے مطابق ’’ژو‘‘ کے ذمہ داری سنبھالتے ہی چین میں پھر سیلاب آگیا۔ یہ سیلاب بھی بہت تباہ کن تھا۔ ژو کہتا ہے کہ ’’سیلاب کا زور اتنا زیادہ ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے سیلابی پانی آسمان پر حملہ آور ہورہا ہو، سیلابی ریلہ پہاڑیوں اور بڑے بڑے ڈھیروں کے اوپر سے گزرتا ، دیکھنے والوں کو ششدر کرتا ہوااور انسانی آبادیوں کو نگلتا چلا جارہا ہے‘‘۔ژو نے سیلاب پر قابو پانے کیلئے اپنے باپ سے مختلف انداز اپنایا۔ ژو نے جان لیا تھا کہ سیلاب آئے تو اسے روکا نہیں کرتے، بلکہ اسے راستہ دیا کرتے ہیں ۔ ژو نے سیلابی پانی کو نکاسی کیلئے اپنی مرضی کا راستہ دیکر سیلابوں کا سارا زور ہی ختم کردیا۔ اس مقصد کیلئے ژو نے سیلابی پانی کو اپنی مرضی کیمطابق چلانے کیلئے نئی نہریں کھدوائیں اور پرانی نہروں کو مزید گہرا کروادیا۔ دریاؤں پر بیراج بناکر ژو نے اِن نہروں کو دریاؤں کے ساتھ جوڑ دیا۔ ژو نے ان نہروں سے راجباہیں نکال کر دریائے زرد کے سارے علاقے میں پانی کی دستیابی ممکن بنادی۔ اس طرح ژو نے نو صوبوں میں نہریں کھدواکر اُنہیں سمندر کے ساتھ جوڑ دیا ۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاںژو نے ڈیم بھی بنائے تاکہ ذخیرہ کرکے بوقت ضرورت اُس پانی کو استعمال میں لایا جاسکے۔ ژو نے سیلابی دریاؤں کی گزرگاہوں کے ساتھ لاکھوں میل کے رقبے میں پانی کی مناسب دستیابی یقینی بناکر چین میں زرعی تہذیب کی داغ بیل ڈالی، اس تہذیب کے آثار آج بھی دریائے زرد کے ساتھ منسلک صوبوں میں دیکھے جاسکتے ہیں،یہ صوبے آج بھی نا صرف چین بلکہ دنیا بھر کے ممالک کواجناس،سبزیاں اور پھل فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔چین اسی نظام کی وجہ سے آج کپاس کی پیداوار میں دنیا کے تمام ممالک میں سب سے آگے ہے۔ سیلاب پانی کا ہو یا سیاسی غصے کا، جو اِس سیلاب کی فطرت کو سمجھ لے، اس کیلئے اس سیلاب پر قابو پانا مشکل نہیں رہتا۔ چینی شہنشاہ ژو نے یہ راز چار ہزار سال پہلے جان لیا تھا کہ سیلابوں کو ’’مے نیج‘‘ کرتے ہیں، انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرتے، لیکن ہم چار ہزار سال بعد بھی سیلابوں کی فطرت کو نہیں سمجھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب آتا ہے تو ہمیں اربوں روپے کی لاگت سے بنائے جانیوالے بند اور حفاظتی پشتے ڈئنامائٹ لگاکر توڑنے پڑتے ہیں، کسانوں کو کروڑوں ڈالر کی تیار فصلوں سے محروم ہونا پڑتا ہے اور دیگر جانی و مالی نقصان الگ سے اٹھانا پڑتا ہے۔پاکستان میں سیلاب صرف تہتر، اٹھاسی اور دو ہزار دس میں ہی نہیں آیا تھا بلکہ سیلاب تو ہر سال دو سال بعد آجاتا ہے، لیکن ہم آج تک اسے ’’مے نیج ‘‘ نہیں کرپائے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن کو خالی روٹیاں توڑنے کے سوا کوئی غرض نہیں، اِرسا اپنی بندر بانٹ سے فارغ نہیں ہوتا اور انڈس واٹر کمشنر کا بس ایک کام کہ پاکستان کے حصے کے پانی کا سودا کیسے کرنا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ سیلاب سر پر آجاتا ہے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے کے ہم سیلاب کو ’’مے نیج‘‘ نہیں کرپاتے۔ قارئین کرام!! سیلاب کو قابو کرنا اتنا بڑا کارنامہ تھا کہ ژو چینی عوامی کا ہیرو بن کر ابھرا، چینیوں نے اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسکے سوا کسی دوسرے کو تخت کے وارث کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مسائل حل کرکے ژو صرف رعایا کا ہی ہیر وہی نہیں بنا، بلکہ شہنشاہ شُن نے بھی اپنے سگے بیٹے کی بجائے تخت کے وارث کے طور پر اُسے ہی منتخب کیا۔ اس طرح ژو چین کا شہنشاہ بن گیا اوراُس نے ایک نئے ’’ژیا‘‘ شاہی خاندان کی بنیاد رکھی، جس نے پانچ سو سال تک چین پر پورے طمطراق سے حکمرانی کی ۔جبکہ دوسری جانب ہمارے حکمران ہیں جو چینی ساختہ بارشی جوتے پہن کر سیلابی پانیوں میں کھڑے ہوکر فوٹو سیشن تو کراتے ہیں، لیکن سیلابوں اور سونامیوں سے نبٹنے کیلئے فطری راستہ اختیار کرنے کی بجائے ’’ژیرانگ‘‘ کے مٹی کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ جناب وزیراعظم! اگر آپ واقعی سیلاب اور سونامیوں سے نبٹنا چاہتے ہیں توچین کے سوشل حکمرانوں کو چھوڑیں، آپ چینی بادشاہوں کے نقشِ قدم پر ہی چل پڑیں۔ آپ ’’ژیرانگ‘‘ سے مدد لینے کی بجائے ژو کے نقش قدم پرہی چل پڑیں، سیلابوں اور سونامیوں کے ساتھ انکی فطرت کیمطابق نبٹیں۔ جناب وزیراعظم! آپ ارادہ تو کریں، ژو کے نقش قدم آپ کو منزل پر لے جائینگے۔

ای پیپر دی نیشن