واشنگٹن (اے این این+ آن لائن+ آئی این پی) امریکہ کے قومی انسداد دہشت گردی مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر نکولس راسموسن نے سینٹ کمیٹی کو بتایا ہے کہ کالعدم لشکر طیبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی مخالف ہے اس کے رہنما مسلسل بھارت کے خلاف بیان دیتے رہتے ہیں۔ امریکی سینٹ کی ہوم لینڈ سکیورٹی اور سرکاری امور کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان میں سرگرم عسکری گروپس خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے براہ راست خطرہ ہیں جن میں لشکر طیبہ، حقانی نیٹ ورک اور تحریک طالبان پاکستان سرفہرست ہیں۔ کالعدم لشکر طیبہ کے رہنما امریکہ پر بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ سینٹ کمیٹی نے سائبر سکیورٹی ، دہشت گردی اور امریکہ کو درپیش چیلنجز کے بارے میں سماعت پر مبنی اجلاس طلب کیا تھا۔ نکولس راسموسن نے کہا کہ ہماری مذکورہ تین عسکری گروپوں پر کڑی نظر ہے ہم ان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کررہے ہیں، ہم ان کے مقاصد پورے نہیں ہونے دینگے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لشکر طیبہ مغربی عسکریت پسندوں کو تربیت بھی فراہم کرتی ہے جو مغرب میں ہماری تنصیبات کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ عسکریت پسند گروپوں کو واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے لئے براہ راست خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ لشکر طیبہ نے2008 ء میں ممبئی حملوں کے دوران جنوبی ایشیا میں مغربی مفادات کو اپنے علاقائی مقاصد کے حصول کے لئے نقصان پہنچایا۔ لشکر طیبہ کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں۔ لشکر طیبہ پاکستانی اور مغربی عسکریت پسندوں کو تربیت بھی فراہم کررہی ہے اور اب ان عسکریت پسندوں میں سے بعض لشکر طیبہ قیادت سے ہدایات لئے بغیر مغرب میں دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان، حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ سمیت افغان اور پاکستانی دہشت گرد گروپ امریکی مفادات کے لئے براہ راست خطرہ ہیں۔ ان گروپوں کا اہم ہدف بھی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہیں۔ تحریک طالبان شمالی وزیرستان میں جاری پاک فوج کے آپریشن کے باوجود خطے کی سکیورٹی کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔ دریں اثناء امریکی کانگرس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران سے ملکی جوہری تنصیبات پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے احتجاج سے پاکستان سے متعلق امریکی حکومت کے سکیورٹی مفادات پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ پاکستان سیاسی انتشار کے عنوان سے جاری رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے سویلین لیڈرز کی ملکی سکیورٹی پالیسی پر کنٹرول میں کمزوری سے جوہری تنصیبات پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے احتجاج سے پاکستان سے متعلق امریکی حکومت کے سکیورٹی مفادات پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے، جو جوہری سکیورٹی، ان کے پھیلاؤ کی روک تھام، افغان استحکام اور پاکستان، بھارت تعلقات کو معمول پر لانے پر مشتمل ہیں۔ انسداد دہشت گردی اور مقامی عسکریت پسندی کی روک تھام کے حوالے سے واشنگٹن برسوں سے پاکستانی فوج کی جانب سے عسکریت پسند گروپس میں امتیاز کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ رپورٹ کانگریشنل ریسرچ سروسز نے تیار کی اسے تمام امریکی ارکان کانگرس میں تقسیم کیا گیا۔
امریکی رپورٹ