لاہور (خصوصی رپورٹر) قائداعظم ایک بے مثال لیڈر تھے، آپ کی بدترین سیاسی مخالف ہندو قیادت بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ قائداعظمؒ کو نہ خریدا جاسکتا ہے اور نہ جھکایا جا سکتا ہے۔ آج ہمیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو قائداعظم کے اصول کام، کام اور کام پر عمل پیرا ہو۔ ہمیں اپنے باہمی اختلافات ختم کرتے ہوئے پاکستان کو قائداعظم کے نظریات و تصورات کے مطابق ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان بنانا ہو گا۔ مجید نظامی مرحوم پاکستان کی ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی بھی ایک بہت بڑی شخصیت تھے۔ ان خیالات کا اظہار تحریک پاکستان کے نامور کارکن‘ سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محمد رفیق تارڑ نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، شاہراہ قائداعظم لاہور میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی 66ویں برسی کے موقع پر منعقدہ محفل قرآن خوانی کے بعد خصوصی نشست سے اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ اس تقریب کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولؐ سے ہوا ۔تلاوت کلام پاک کی سعادت حافظ امجد علی نے حاصل کی جبکہ الحاج اختر حسین قریشی نے بارگاہ رسالت مآبؐ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے ادا کئے۔ محمد رفیق تارڑ نے کہا کہ قائداعظم بے مثال لیڈر تھے۔ تقسیم ہند سے قبل مسلمان ایک ہجوم اور بھیڑ کی شکل میں تھے لیکن قائداعظم کی پر کشش شخصیت نے اس ہجوم کو قوم کی شکل دیدی۔ قائداعظم انگریزی بولتے اور اسی زبان میں تقریر کرتے تھے، لاکھوں مسلمانوں کا جم غفیر ہمہ تن گوش ہو کر ان کی تقریر سنتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی نے ایک آدمی سے پوچھا کہ کیا تمہیں اس تقریر کی سمجھ آ رہی ہے، تو اس نے کہا جی ہاں ’’بابا جو کہہ رہا ہے بالکل سچ کہہ رہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا قائداعظم نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا اور ہمیشہ سیدھی اور صاف بات کی۔ انہوں نے کہا پاکستان کی امیدیں نئی نسل سے وابستہ ہیں، آپ خوب محنت کریں اور علم حاصل کریں۔ علم سے ہی قومیں بنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے اس ادارے (نظریۂ پاکستان ٹرسٹ) کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرنے کی صلاحیت اور توفیق عطا فرمائے۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم کے انتقال پر پوری قوم سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ یہ قائداعظم کی عظمت ہے کہ آج 66سال گزرنے کے باوجود بھی قوم اپنے قائداعظم کو یاد کررہی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کریں۔ ممتاز صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ قائداعظم کو جب ان کی زندگی کے آخری ایام میں زیارت سے کراچی لے جایا گیا تو کراچی ایئرپورٹ سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایمبولینس خراب ہو گئی۔ اس وقت پورے کراچی میں صرف دو یا تین ایمبولینس تھیں، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی کیا حالت تھی اور اس کے پاس کتنے وسائل تھے۔ قیام پاکستان کے وقت 80فیصد لوگوں کے پاس پہننے کیلئے جوتے نہیں تھے جبکہ 70فیصد آبادی میں ناشتے کا تصور تک نہیں تھا، پیاز یا اچار کے ساتھ روٹی کھائی جاتی تھی۔ اس کے مقابلے میں آج پاکستان بہت خوشحال ہے۔ انہوں نے کہا جناب مجید نظامی کے انتقال کے بعد قائداعظم کی یہ پہلی برسی آئی ہے تو ہمیں جناب مجید نظامی کو بھی ضرور یاد رکھنا چاہئے۔ وہ پاکستان کے سچے سپاہی اور قائداعظم کے جانثار تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین!۔ بیگم بشریٰ رحمن نے کہا کہ آج ہم اپنے محسن کی یاد منانے کیلئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج ہم خلوص نیت سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ اسلامی ملک دلوانے کا جو وعدہ اپنے رب سے کیا تھا اسے پورا کیا۔ قائداعظم نے ہمیں کردار کی بلندی کے اصول سکھائے۔ نئی نسل کو حیاتِ قائداعظم کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ آج ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی ہے کہ ہم نے بابائے قوم کے فرمودات پر کس قدر عمل کیا ہے۔ آج ہمیں یہ وعدہ کرنا ہو گا کہ قائداعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کو قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کا پاکستان بنائیں گے۔ میجر جنرل (ر) راحت لطیف نے کہا کہ قائداعظم کی قیادت نے مسلمانان برصغیر نے ایک علیحدہ اسلامی مملکت حاصل کی اب اس کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر پروین خان نے کہا کہ قوم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی بابائے قوم کے اس دنیا سے چلے جانے سے یتیم ہو گئی۔ قائداعظم طلبہ سے بے حد پیار کرتے تھے۔ پروفیسر مسرت کلانچوی نے کہا کہ قائداعظم کی عظمت کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے تھے۔ شاہد رشید نے کہا 11ستمبر2007ء کو قائداعظم کی برسی کے موقع پر ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم نے ایوان قائداعظم بنانے کا اعلان کیا تھا۔اس کا ڈھانچہ بن چکا ہے اور فنشنگ ہو رہی ہے‘ انشاء اللہ یہ جلد فنکشنل ہو جائے گا۔ یہ ایوان نئی نسل کی نظریاتی تعلیم و تربیت اور افکار قائداعظم کے فروغ کا مرکز ثابت ہو گا۔ پروگرام کے دوران علامہ احمد علی قصوری نے قائداعظم، مشاہیر تحریک آزادی اور جناب مجید نظامی کے بلندیٔ درجات اور استحکام پاکستان کے لئے خصوصی دعا کرائی۔ مولانا محمد شفیع جوش نے ختم شریف پڑھا۔ آخر میں شرکاء کو تبرک بھی دیا گیا۔ تقریب کا اختتام پاکستان اور قائداعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ہوا۔
رفیق تارڑ