اسلام آباد (ابرار سعید/ دی نیشن رپورٹ) پاکستان تنحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات ٹوٹنے کے خطرہ کے باعث سیاسی جرگہ نے آگے بڑھتے ہوئے حکومت اور پی ٹی اے میں مذاکرات کے ایک اور دور میں مدد دی، پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سے ملاقات کے بعد سیاسی جرگہ کے سربراہ سراج الحق نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز، حکومت، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سامنے متعدد تجاویز رکھی ہیں، یہ اس توقع پر پیش کیں کہ یہ تمام سٹیک ہولڈرز ایشوز پر اپنے موقف میں کچھ لچک دکھائیں گے۔ اگرچہ سراج الحق نے مسائل کے حل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تاہم یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ مذاکرات آگے بڑھتے نظر نہیں آتے۔ اس حوالے سے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومتی ٹیم کی جانب سے متعدد تجاویز پر اپنا موقف نہیں بدلا، اس میں عدالتی کمشن کے کام کرنے کا طریقہ اور دھاندلی کے الزامات کی تصدیق کا پروسیجر شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق مذاکرات قریباً خاتمہ کے قریب تھے کہ جرگہ کے ارکان در آئے اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کاروں کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ بات چیت جاری رکھیں اور مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے۔ جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر دوبارہ ہوئے، پی ٹی آئی اور حکومتی ٹیموں کے ارکان نے میڈیا سے گفتگو سے گریز کیا اور ان کے چہروں پر پریشانی کے آثار تھے۔ ایک آدھ روز میں دوبارہ مذاکرات ہونگے۔ اطلاعات کے مطابق سراج الحق نے اگرچہ اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ انہوں نے دونوں فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ تمام فریقوں کیلئے جیت کی پوزیشن کیلئے اپنے مؤقف میں نرمی پیدا کریں۔ ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے کہا کہ حکومتی مذاکرات کاروں کا رویہ غیرسنجیدہ ہے، وہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے بنیادی مطالبات ماننے کو تیار نہیں۔ جرگہ نے مذاکرات کے ایک دور کی تجویز دی۔ جہانگیر ترین نے اعتراف کیا ہے کہ دونوں جانب دھاندلی کی تعریف کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ پی ٹی آئی 30 حلقوں سے آگے نہیں بڑھ رہی جبکہ حکومتی ٹیم 2013ء کے الیکشن میں مجموعی طور پر دھاندلی کی تحقیقات چاہتی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا انتخابی نتائج کسی مخصوص جماعت کو فائدہ دینے کیلئے انجینئرڈ تو نہیں۔ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے جوڈیشل کمشن کے قیام کا مطالبہ مان لیا ہے تاہم اس کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ دریں اثناء سیاسی جرگے نے موجودہ بحران میں بعض مسائل پر ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے حتمی سفارشات پیش کرتے ہوئے فریقین سے تین روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔ صحافیوں سے گفتگو میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ہمارے جرگے کو پوری قوم کا اعتماد حاصل ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسلسل محنت کے نتیجے میں ہمیں اتنی کامیابی ضرور ملی کہ حکومت اور دوسرے فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں تاہم اس پر بہت سی چیزوں پر اتفاق اور کئی معاملات پر اختلاف بھی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ جن لوگوں نے مارچ میں حصہ لیا اور دھرنے دئیے وہ خوشی اور کامیابی کے ساتھ اپنے گھروں کو جائیں، ہم نہیں چاہتے کہ طویل مہم اور دھرنے کسی ناکامی کے ساتھ ختم ہوں۔ ہم دھرنے دینے والوں کو اور حکومت دونوں کو باعزت راستہ دینا چاہتے ہیں۔ جرگہ عدالت کی طرح فیصلے نہیں کرسکتا، ہمارا بنیادی کام فریقین کو عزت کا راستہ دینا ہے۔ اس وقت فریقین کے جذبات انتہا پر ہیں لیکن یہ تینوں مختلف افواج نہیں سیاسی جماعتیں ہیں جن کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ رحمان ملک نے کہا کہ حکومت اور دیگر فریقین کے درمیان وزیراعظم کے استعفے پر ڈیڈ لاک ہے جس کیلئے ہم نے بہترین حل بتا دیا ہے قوم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ آصف زرداری اور الطاف حسین نے اپوزیشن جرگے کو فون کیا دونوں رہنمائوں نے جرگے کے رہنمائوں سے مشاورتی اجلاس پر بات کی۔ آصف زرداری اور الطاف حسین نے جرگے پر اظہار اعتماد، مصالحتی عمل پر خراج تحسین پیش کیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سیاسی جرگے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ارکان نے آخری اجلاس میں شرکت کی۔ دوسری جانب جرگے کے ارکان نے تحریک انصاف کے رہنمائوں سے ملاقات کی۔ سراج الحق، رحمان ملک، سینیٹر کلثوم پروین اور تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے مذاکرات میں حصہ لیا۔ مذاکرات کے بعد میڈیا سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم مثبت انداز میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ معاملا ت کو نیک نیتی سے سلجھانے کی کوشش کی۔ وزارت داخلہ ماحول کو خراب نہ کرے، حکومت ایک قدم آگے بڑھائے تو خیر کی خیر ہو گی۔ سراج الحق نے کہا کہ دھرنے کو 100 دن بھی ہو جائیں تو مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔اسلام آباد سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق تحریک انصاف اور حکومتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔ دونوں ٹیمیں صحافیوں سے گفتگو کئے بغیر چلی گئیں۔