کہاں کھو گئے وہ میاں صاحب کے متوالے!

اپنے تیسرے عہداقتدار کی خوش فریبیوں میں سرمست مسلم لیگ کے قائدمیاں محمد نواز شریف بہت مدت ہوئی پارٹی کی تنظیمی کارگزاریوں سے بے نیاز ہو چکے ہیں اور مشکل ترین دور میںساتھ نبھانے والے وفادار کارکنوں اور رہنماﺅں کے چہروں کو یا تو وہ بھول چکے ہیں یا ان سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔ جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے اور سرور پیلس میں گن گن کر سعودی عرب میں جلاوطنی کے دن کاٹ رہے تھے اور وہاں ان کے لئے کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا تو بھی پارٹی کی تنظیم سازی اور مشاورت میںپنجاب سے باہر ان کی دلچسپی عنقا تھی ۔ پورا پاکستان ان کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن ان کی نگاہیں صرف پنجاب پر مرکوز تھیں ¾ لگتا تھا وہ باقی تین صوبوں میں اپنی سیاست کو آگے بڑھانا ہی نہیں چاہتے یا پھر وہاں سرگرم عمل ان کے متوالے اس قابل ہی نہیں کہ انہیں منہ لگایا جائے۔ لوگ ان کی جلا وطنی میں ان کا ساتھ دینے کی پاداش میںملک کے کونے کونے میںماریں کھاتے رہے ان کے نام کے طعنے سہتے رہے قدم بڑھاﺅ نواز شریف  ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے بلند کرتے رہے ازشریف کا نام زندہ رکھنے کے لئے پیسہ لٹاتے رہے لیکن جب ان کی وطن واپسی ہوئی تو وہ سب کے سب اجنبی یا معتوب ٹھہرا دئیے گئے۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن )سندھ تواس نئے مرحلے میں بھی ماضی کی طرح ان کے لئے شجر ممنوعہ ہی رہی۔میاں نواز شریف جلاوطنی ترک کر کے آئے تو انہیں اپنے حصار میں لینے والے ایسے کئی چابک دست فصلی بٹیرے موجود تھے جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں چوہدری صاحبان کے ساتھ مل کر موج میلے کرتے رہے اور میاں صاحب کی واپسی کی راہوں میں کانٹے بھی بچھاتے رہے لیکن جب میاں نواز شریف کے اقتدار کے جگنو پھرجگمگانے لگے تو سب نے انہیں پھرتی سے یرغمال بنا لیا۔میاں صاحب وطن لوٹے تو ان مفاد پرستوں نے انہیں ایسے ہاتھوں ہاتھ لیا کہ جیسے وہ ان کی آمد کے لئے تڑپ رہے تھے۔
میاں صاحب نے ماضی کی سیاست سے سبق نہیں سیکھا ¾سیاسی غلطیاں دہرانا ان کی سرشت میں شامل ہے۔وہ ذرا سے ضدی بھی ہیں ¾ ایک بار جو ٹھان لیں پھر ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ بعض معاملات میں یہ ضد کارآمد اور ضروری ہوتی ہے لیکن ہر بات پہ اڑ جانے کی عادت بڑے بڑے نقصانات کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔وہ زود رنج بھی ہیں کہ کسی وفادار ترین شخص کی ایک معمولی سی غلطی پر اسے زندگی بھر کے لئے نظروں سے گرا دیتے ہیں اورپھر پلٹ کر اس کا نام تک نہیں لیتے۔کانوں کے اتنے کچے ہیں کہ کسی ”بہی خواہ “کی اطلاع پر تصدیق کی صعوبت میں پڑے بغیربڑے بڑے سیاسی فیصلے کر گزرتے ہیں اور پھر کئی سال انہیں وہ کانٹے چننے میں لگ جاتے ہیں۔ کل تک وفاداراور نظریاتی مسلم لیگیوں کا ایک قافلہ مسلم لیگی قائد کے ہمراہ تھا ¾وقت نے کروٹ لی تو وہ سارے متوالے کہیں دھندلکوں میں کھو گئے۔ سندھ میں میاں صاحب کے وفادار سردار رحیم کے ساتھ کیا ہوا ¾شاہ محمدشاہ نے پرانے نظریات کی قربانی دی ¾نواز شریف سے وفاداری کا کلمہ پڑھا ¾وہ کہاں رہ گئے ¾حرمین شریفین میں میاں صاحب کو وفاداریاں جتانے والا ملک نعیم اعوان کہاں کھو گیا ¾مسلم لیگ کے لئے رات اور دن کالے کرنے والے زین انصاری اور نواز شریف کے نام پر وقت اور لاکھوں لٹانے والے علی اکبر گجر کو پارٹی میں رہ کر بھی کیا توقیر ملی؟سندھ سے باہر بھی درجنوں نام ہیں ¾خیبر پی کے ¾کے سرانجام خان ¾سبحان خان ¾ملک جہانزیب ¾پیر صابر شاہ ¾ کمال خان مروت ¾ انعام خان ¾ بلوچستان کے ملک رفیق ¾سردار یعقوب ناصر ۔ مسلم لیگ کے سیاسی شہیدوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو پارٹی میں رہ کر بھی زندہ درگور کر دئیے گئے ہیں۔
پھر جب وہ 2013ءمیں عام انتخابات جیت کر اقتدار میں آئے اور مفاہمت کی پرواز پکڑ لی تو اس پرواز میں بھی پنجاب مسلم لیگ کے علاوہ کوئی صوبائی تنظیم ان کے لئے اہم نہیں تھی ¾ سندھ اس بار بھی ان کی نظر کرم سے محروم رہا۔ یہ ہوا کہ چند پرانے اور وفادار ساتھیوں ممنون حسین ¾ مشاہداللہ خان ¾سلیم ضیا ¾ نہال ہاشمی اور ارشد جدون ایڈووکیٹ کووزیراعظم نے دل کھول کر نوازا لیکن اکثریت اب بھی ان کی بے نیازی کا شکار ہے۔ شہیدوں کے خاندان اور قربانی دینے والے رہنماﺅں اور کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ آج بھی میاں نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئی ہے۔میاں صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ تو پرانے اور وفادار ساتھیوں کو ساتھ رکھ سکے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو مطمئن کر سکے ہیں جو پیپلز پارٹی کی مخالفت یا ان کے اقتدار کی تحریص میں ان کے ساتھ آملے تھے۔ سندھ نیشنل فرنٹ کی جمع پونجی مسلم لیگ (ن) کے خزانے میں جمع کرانے والے سردار ممتاز بھٹو آج مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے مایوس ہو کر سندھ نیشنل فرنٹ کے مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان ڈالنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔بزرگ سیاستدان الٰہی بخش سومرو بھی میاں نواز شریف کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ٹھٹھہ کے شیرازی برادران مسلم لیگ میں نیم بروں نیم دروں گھسٹ رہے ہیں۔ نواز شریف ¾ پرویز مشرف مناقشہ میں کھل کر میاں نواز شریف کا ساتھ دینے والے جسٹس (ر) سید غوث علی شاہ بھی مسلم لیگ کے مکھن میں سے بال کی طرح ایسے نکال دیئے گئے کہ کوئی صدر مملکت اور وزیراعظم کے سامنے ان کا نام لینے کی بھی جسارت نہیں کر سکتا۔پرویز مشرف کے جہاز سے اتر کر مسلم لیگ کی پرواز میں سوار ہونے والے لیاقت جتوئی کا بھی کہیں اتہ پتہ نہیں ۔ جوتھے اور نہ رہے اور جو آئے اور آنکھوں میں جچ نہ سکے ¾میں حاضر اور لاموجودکتنے نام گنواﺅں ¾ کس کس کا ذکر کروں ¾ نظرانداز کئے جانے والے غریب کارکنوںکے نام لکھنے بیٹھوں تو کالم تنگ پڑ جائے گا۔ یہی پاکستان کی سیاست ¾سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کا المیہ ہے۔ نظریہ غارت ہو گیا ہے ¾ نظریہ ضرورت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...