قومیں اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی بقا اور توسیع کیلئے بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ زیادہ تر لڑی جانیوالی جنگیں دنیا میں اسی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے بچاو یا پھیلاﺅ کیلئے لڑی گئیں۔کسی قوم کی بقا اور عظمت اس کی تہذیب اور ثقافت کی بقا سے وابستہ ہوتی ہے۔ دنیا کی زندہ اور غیرت مند قومیں اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سے محبت کرتی ہیں اور اسکے تحفظ کیلئے ہر طرح سے تیار رہتی ہیں۔ ہر قوم کی ایک مستقل شناخت ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی۔ لیکن پاکستانی قوم اس شناخت سے بے نیاز دکھائی دیتی ہے۔ یہاں جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر قوم کو دیگر تہذیبوں کا خوشنما اور میٹھا زہر پلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اپنی ثقافت اور اخلاقی قدروں سے ناآشنائی اور دوری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اکثر لوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ دوسروں کی ایجادات سے مستفید ہوا جا سکتا ہے تو ان کا کلچر کیوں نہیں اپنایا جا سکتا۔ انکی یہ رائے اس لیے بے وزن ہے کہ ایجادات اور استعمال کی چیزیں تو بکاﺅمال ہوتی ہیں۔ انھیں کسی بھی دام خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔ لیکن قوم کے نظریات، مذہبی روایات، اخلاقی اقدار، اور ثقافت کوئی بیچی اور خریدی جانے والی چیزیں نہیں ہوتیں یہ اس قوم کا قیمتی سرمایہ اور ورثہ ہوتیں ہیں۔ علم اور حکمت حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اسے مومن کی گمشدہ میراث قرار دیا گیا ہے نہ کہ دوسروں کی تہذیب وثقافت اپنانے کی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس چلن کا فقدان ہے ہمسایہ ملک بھارت کا کلچر ان کی فلموں اور ڈراموں کے ذریعہ ہمارے معاشرے میں کس قدر جذب ہو گیا ہے اسے ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے میری بھانجی سنیہ ٹیرس پر کھڑی دوسری بہن کو آوازیں دینے لگی دیکھو آپی ہندوﺅں کی شادی ہو رہی ہے اس کی آواز میں حیرت اور جوش تھا ۔ مجھے تجسس ہوا کیونکہ ہمارے محلے میں کوئی بھی ہندو نہیں رہتا، دیکھا تو بہت ساری ساڑھی پہنے خواتین سامنے والے گھر میں شادی پر شرکت کے لیے آئیں تھیں۔ خیر ساڑھی کی حد تک بات رہتی تو کوئی انہونی نہیں تھی لیکن تمام خواتین نے اپنے ماتھے پر بندیا بھی لگا رکھی تھیں۔ ایک لڑکی نے تو مانگ میں سرخ رنگ بھی بھرا ہوا تھا۔ یہ آبزرویشن کہ شادی ہندوﺅں کی ہو گی ایک چھ سال کی بچی کی تھی جس نے ان کا روپ دیکھ کرانھیں ہندو سمجھ لیا۔اسی طرح ہمارے کالجز میں راکھی ،ہولی اور دیوالی جیسے پروگرامز بھی اب کالج انتظامیہ کے زیر نگرانی کروائے جانے لگے ہیں۔ ثقافتی پروگرامز میں انڈین گانوں پر رقص کیے جاتے ہیں۔وہ ہمارے حصے کا پانی روکیں اور سیلاب کی صورت میں ہمیں ڈبوئیں۔ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کریں، افغانستان کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کریں۔ ہم پر جنگ مسلط کریں اور دنیا بھر میں واویلا کریں کہ پاکستان دہشت گرد ملک ہے۔ اور ہم ان کے ساتھ امن کی آشائیں چلائیں۔ ہم احساس کمتری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس احساس کمتری سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اصل وقار اور عزت اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات کے ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور کلچر پیدا ہو چکا ہے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کرانڈین فلمیں دیکھنا اور ڈسکس کرنا ان کے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بچے میچور ہو چکے ہیں۔ حیا اسی طرح آہستہ آہستہ ختم ہوتی ہے بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یقیناًاگلا قدم اس سے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ جسکے اثرات ہم اپنے معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی قدروں کے زوال کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں بھارت کی فلمیں اور ڈرامے ہمارے میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں وہاں یہ ہماری زبان پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ جیسے ایک اینکر فرما رہے تھے مجھے اس بات پر وشواس نہیں ہے۔ اب نئے چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ایسے ملک کی فلمیں جس میں پاکستان کو حقیر اور دہشت گرد دکھایا جاتا ہے اور ان کے ڈرامے جن میں سازشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہماری قوم کی اخلاقی تربیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں ان کو پاکستان میں بین کیا جائے۔جہاں پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کو فروغ دیا جائے وہاں ان کو اپنی اخلاقی قدروں ، ثقافت اور تہذیب کا پابند بھی کیا جائے۔ اسی صورت میں ہماری بقا ہے۔ ورنہ دو قومی نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں نہ ہی اسلامی جمہوریہ کے اسلامی جمہوریہ ہونے کی۔ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں میں فرق دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر کھڑے واضح نظر آنا چاہیے۔ تہذیب اور ثقافت کا فروغ اور اس حوالے سے اجتماعیت کا شعور اعلی اداروں اور حکومت کی طرف سے پالیسز میں تبدیلی کرنے اور ان کو نافذ کروانے سے ممکن ہے۔ اردو زبان کے نفاذ کی طرح ہر میدان میں ہماری تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی بھی اشد ضرورت ہے۔