ممکنہ جنگ پر ایک نظر

ستمبر 65کی جنگ میںہمارے پاس بھارت کی نسبت اگرچہ فوج، ہتھیار اور گولہ بارود کی کمی تھی لیکن یہ کمی ہماری افواج کے جذبہ جہاد اور دوستوں کی بروقت امداد نے پوری کردی تھی۔ چین نے ہوائی جہاز، ٹینک، اور چھوٹے ہتھیار مہیا کردئیے تھے۔ فیلڈ مارشل کی اپیل پر چین نے بھارتی سرحدوں پر اپنی فوج جمع کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا۔ ایئرمارشل اصغر خاں کتاب میں لکھتے ہیں۔
میں نے ایوب خاں کو کہا کہ چینی وزیراعظم آپ سے اس لئے ملنا چاہتے ہیں کہ وہ جان سکیں کہ آپ کا جنگ کرنے کا مصمم ارادہ ہے یا نہیں۔ پھر ہی وہ اپنی فوج کو بھارت کی طرف پیشقدمی کا حکم دیں گے۔ اصغر خاں لکھتے ہیں۔ افسوس کہ اس موقع پر بھی چینی وزیراعظم کی یہ معمولی سی پیش کش بھی قبول نہ کی۔ اس لئے کہ کہیں مغربی اتحادی ناراض نہ ہوجائیں۔ افسوس کہ امریکہ نے ہماری فوجی امداد بند کردی اور ساتھ ہی ایران اور ترکی کو جو سینٹو اور سیٹو کے ممبر تھے انہیں تلقین کردی کہ پاکستان کو جنگی پرزے اور بڑے ہتھیار فراہم نہ کریں۔ یہ دو مسلمان ممالک پھر بھی ہمیں چھوٹے ہتھیار اور جنگی پرزے دیتے رہے۔ انڈونیشیا کے صدر سوئیکار نو نے کھل کر پاکستان کی مدد کی۔
اب اگر پاکستان بھارت جنگ ہوئی جس کے آثار نمایاں ہیں۔ بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ نے اپنی فوج کو پاکستان کے خلاف مختصر جنگ کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ دو برس میں بھارت نے ایل او سی پر 70مرتبہ گولہ باری کر کے تباہی مچائی ہے جنگ کی رٹ ایک طرف بھارتی عقابوں نے لگا رکھی ہے اور دوسری طرف پاکستانی شیر ایٹمی دانت نکال کر دھاڑ رہے ہیں۔ آئندہ پاک بھارت جنگ 65جنگ سے کئی گنا خونریز، ہولناک اور وسیع پیمانے پر ہوگی۔ اس لئے کہ دونوں اطراف فوجوں کی تعداد کئی کئی گنا بڑھ چکی ہے اور وہ جدید اور خطرناک ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس ہوچکی ہیں۔ اتنی بڑی مسلح افواج کے ساتھ پاکستان کے لئے امرتسر تک علاقہ فتح کرنا بہت آسان اور بھارتی فوجوں کا Blitzرفتار پر میلوں پاکستان کے اندر گھس جانا مشکل نہ ہوگا۔
بھارت کی پاکستان کے بڑے شہروں پر چھاتہ بردار فوجیں اتریں گی۔ فوجی مشق براس ٹیکس جس میں بھارتی فوجیں سندھ فتح کرنے چلی تھیں اور ایٹم بم کے خوف سے واپس بھیج دی گئیں ان کی چھاتہ بردار فوجیں اتارنے کی پلاننگ تھی۔ کیا بھارتی چھاتہ سے فوج بچاﺅ کے لئے حکومت پاکستان نے تیاری کی ہے؟ وزیر دفاع اعلان تو کرتے ہیں کہ ہم بھارت سے ہر چھوٹی بڑی جنگ کے لئے تیار ہیں لیکن شہروں دیہات کو چھاتہ بردار فوجیوں سے بچانے کے لئے کوئی انتظام نہ ہے۔ بھارت میں سکولوں، کالجوں اور محلوں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ملٹری ٹریننگ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں کالجوں، یونیورسٹیوں میں فوجی تربیت بند کر دی گئی۔ کسی شہر میں ائیرریڈ شیلٹر نہیں۔ ہوائی حملے کے وقت لوگ کہاں سر چھپائیں گے۔ پاک فوج تو سرحدوں پر یا دشمن کے علاقوں میں جنگ کر رہی ہوگی۔ شہروں، دیہات، محلوں کی کون حفاظت کرے گا؟
98%شہری اور دیہاتی پستول اور رائفل چلانا نہیں جانتے۔ وہ جنگی ایام میں فوج کے کس کام آئیں گے؟ سیاسی، مذہبی،کسان اور سول سوسائٹی کے لیڈروں کو چاہئے وہ حکمرانوں کو ان خطرات سے آگاہ کریں۔ تاکہ نوجوانوں کو دفاع کے لئے تیار کر کے محلوں، شہروں اور دیہات کی حفاظت کی جاسکے۔ جیسے اسرائیلی شہری جنگ شروع ہوتے ہی 48گھنٹوں میں مسلح ہو کر اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ نہ ہوا تو ڈرہے کہ ہندو سکھ فوجی اور آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کے گھر بار اور عزتیں تار تار کردیں گے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی فوج اور ہندو غنڈوں نے جو مشرقی پاکستان کے شہروں اور دیہات کا حال کیا ان پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ بریگیڈئر مظہر یٰسین نے چشم دید واقعات مجھے سنائے کہ ”ہندو غنڈے اور آر ایس ایس کے مسلح کارکن فوج کے پیچھے سینکڑوں سول ٹرک لائے اور ہر گاﺅں اورشہر سے مسلمان لڑکیاں چن چن کر لے گئے اور تمام بڑے کارخانوں کی مشینری بھی ساتھ لیتے گئے خدا نہ کرے یہ دن ہمیں دیکھنا پڑ جائے۔

ای پیپر دی نیشن