ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے چھوٹے اور بڑے ایٹمی ہتھیار بنانے کا عمل جاری رہے گا۔اس بات کو یوں بھی کہا گیا کہ بیرونی جارحیت کا جواب دینے کے لئے قابل اعتمادایٹمی قوت برقرار رکھی جائے گی۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم ایٹمی قوت نہیں تھے ا ور بھارت نے ہمیں اندرونی طور پر تقسیم کر کے دو لخت کر دیا تھا، یہ سانحہ اکہتر میں رونما ہوا۔ بلکہ اس نے ہمیں رو سیاہ کر دیا۔تب بچے کھچے پاکستان میں بھٹو کی حکومت بنی،ا سکے دل میںکیا خیال آیا کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا اعلان کر دیا۔اس ا ثنا میں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا تھا، دنیا نے بھارت سے کوئی تعرض نہ کیا،ا س سے پاکستان کا حوصلہ بھی بلند ہوا، مزید حوصلہ بڑھانے کے لئے بھٹو نے قوم سے کہا ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنا کے رہیں گے۔ بھٹو نے اس امر کی پروا نہ کی کہ انہوں نے تو روٹی کپڑے اور مکان کے نعرے پر الیکشن جیت کر اقتدارا حاصل کیا تھا اور اگر قوم کو گھاس کھانے پر لگا دیا تو وہ اگلا الیکشن ہار جائیں گے، بھٹو نے توجان کی پروا بھی نہ کی۔ویسے وہ زمانہ عالمی طور پر کچھ کچھ پرامن تھا، ان دنوں امریکی ا ور نیٹو افواج نے ابھی اتنی طاقت نہیں پکڑی تھی کہ وہ ایٹم بنانے والے کے خلاف لٹھ لے کر پیچھے پڑ جائیں جیسے انہوں نے پہلے تو ا سرائیل کے ہاتھوں عراق کی پٹائی کروائی ا ور بعد میں عراق کے مفروضہ ایٹمی اسلحے کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ نے خود بھی چڑھائی کر دی۔ اور صدام حسین کو پھانسی دے دی، پھانسی تو بھٹو کی قسمت میں بھی لکھ دی گئی تھی مگر اس کے لئے موڈیس آپرینڈی الگ اختیار کیا گیا۔ افغانستان کا تورا بورا بھی اس وقت بنایا گیا جب ایک پاکستانی صحافی نے اسامہ کا یہ انٹرویو چھاپا کہ ا س کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے ۔ میں کون ہوتاہوں اس انٹرویو کے مندرجات کو چیلنج کرنے والا کیونکہ زندگی بھر اسامہ نے خود بھی اس کی تردید کی ضرورت محسوس نہیں اور یہی سوچا کہ کمپنی کی مشہوری ہوتی ہے تو کیا ہرج ہے جبکہ انہیں امریکیوںنے رات کی تاریکی میں ایبٹ آباد کے ایک وسیع و عریض بنگلے میں شہید کیا تو اسامہ نے کوئی پستول تک فائر نہ کیا۔ بہر حال پاکستان کو حالات اچھے ملے ، ڈاکٹر عبدالقدیرا ور ان کی سرفروش ٹیم نے ساری دنیا سے ضروری آلات منگوائے ا ور بالآخر پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔یہ جرم جنرل ضیا کے زمانے میں سرزد ہوا۔1984 میں امریکی سفیر نے دی نیشن کی ایک تقریب میں کہا کہ پاکستان سرخ بتی عبور کر چکا ہے، اس کی سزا ضیاالحق کو سنائی گئی اور ان کا طیارہ بہاولپور کی فضا میں پھٹوا دیا گیا۔
پاکستان نے گھاس ہی نہیں کھائی، دو سربراہان مملکت کی جان کی قربانی بھی دی۔ محترمہ بے نظیر نے میزائل پروگرام کو پروان چڑھایا، انہیںکی حکومت بار بار تڑوائی گئی ا ور آخرا سے بھی ایک دھماکے میں شہید کروا دیا گیا۔ میاںنواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کا گناہ کیا، ان کی قسمت میں قلعے، سیف ہاﺅس اور جلا وطنی لکھ دی گئی، خدا ن کی جان کی حفاظت کرے۔ مجھے یقین ہے کہ اس دعا پر ان کے کٹر سیاسی دشمن بھی آمین کہیں گے ۔
ہم نے گھاس بھی کھائی، ہماے حکمرانوں کی جانوں کی فصل بھی کٹی اور ہم نے اس ا یٹمی پروگرام کی خاطر گالیاںبھی کھائیں، یہ ابھی کل کی بات ہے جنرل مشرف نے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر کو مجبور کیا کہ وہ ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر قوم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ بیرونی دنیا تو محسن پاکستان کو گالیاں دے ہی رہی تھی، ہم میں سے بھی ہر کوئی پیش پیش تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کی ناک کٹوا دی ا ور اپنی جیب بھرلی۔مگر محسن پاکستان نے گالیاں کھائیں اور بقول حضرت غالب بدمزہ نہیں ہوئے۔
پاکستان کا نام لئے بغیر نائن الیون سے بہت پہلے یہ گالیاں دی جانے لگیں کہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے ۔ہر کوئی اچھی طرح سمجھتا تھا کہ یہ اسلحہ پاکستان نے دہشت گردوں میں تقسیم کیا ہے ، کوئی بھی بھارت پر شک نہیں کرتا تھا ، کوئی اسرائیل پر شک نہیں کرتا تھا اور کوئی یہ بھی نہیں کہتا تھا کہ جو ملک یہ الزام لگا رہا ہے ، وہ خود بھی تو یہ نیک کام کر سکتا ہے۔
اور اب ہم اگلے مرحلے میں قدم رکھ رہے ہیں یا اس راستے پر چلنے کا تہیہ کر رہے ہیں کہ چھوٹے بڑے ایٹمی ہتھیار بناتے رہیں گے، چھوٹے ہتھیار وہ اسمارٹ بم ہیں جو دشمن کے ایک پورے بکترڈ ویژن کو نیست نابود کر سکتے ہیں اور وہ تباہی بھی نہیں مچاتے جو امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں مچائی ۔ اور لاکھوں ہنستے بستے انسانوں کو چشم زدن میں پگھلا کر رکھ دیا تھا۔
پاکستان کو یہ اعلان کیوں کرنا پڑا ہے، اس لئے کہ بھارت نے دھمکی دی ہے کہ وہ چھوٹی بڑی جنگ یعنی کولڈ اسٹارٹ اور ہارڈ اسٹارٹ کے لئے تیار ہے۔کبھی کہتا ہے کہ وہ مختصر آپریشن کر کے کچھ لوگوں کو پاکستان کی سرزمین سے ا چک لے جائے گا اور وہ ایسی دھمکیاں اس وقت دے رہا ہے جب اس کی فوجیں دن رات ورکنگ باﺅنڈری اور کنٹرول لائن پر تباہی مچا رہی ہیں اور پاکستان دانتوں تلے زبان دے کر صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے مگر تا بکے ، کب تک!!آخر کب تک!
ہم نے چھوٹے بڑے ایٹمی ہتھیار بنانے ہیں خواہ ہمیں گدھوں کا گوشت کیوںنہ کھانا پڑے۔ شکریہ میڈیم عائشہ ممتاز جو روز ہمیں خوشخبری سنا رہی ہیں کہ ہم گدھوں کا گوشت کھا رہے ہیں، اب تو یہ خبر بھی آ گئی ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے پڑوس سے خنزیر کا بھی ٹنوں گوشت بر آمد ہوا ہے، ہم یہ سب کچھ کھا نا گوارا کر لیں گے ، ہم نے گھاس کھائی، ہم نے گالیاں کھائیں ، اب گدھے کھائیں گے مگر ایٹمی ڈیٹرنس کے راستے پر ضرور چلیں گے، گھاس کھانے، گالیاںکھانے یا گدھے کھانے سے ہماری آزادی اور اقتدارا علی کو کوئی نقصان نہیں، مگر ایٹمی اسلحے کو ترک کر کے ہم ہندو کی ابدی غلامی میں چلے جائیں گے، ہمیں یہ گوارا نہیں ہم قائد اعظم کے پاکستان کا تحفظ کریں گے ، یہ ہمار اقومی عزم ہے ، ا س سے ہمیں کوئی متزلز ل نہیںکرسکتا۔