مکہ میں دوران حج شیطان کو کنکریاں مارنے کا بھی ایک مرحلہ آتا ہے۔ وہاں کئی لوگ شیطان کو زور زور سے کنکریاں مارتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ شیطان جو آدمی کے اندر ہے۔ اسے تو بہت پال پوس کر رکھتے ہیں یہ منافقت کیا ہے؟ ہماری عبادتیں بہت عالمگیر ہیں۔ علامتوں کے کئی جہان ان میں چھپے ہوتے ہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنا بھی ایک علامت ہے کہ یہ ہمارا دشمن ہے اس کا مقابلہ کرنا ہے اور اسے زیر کرنا ہے مگر ہم دشمن کر زیر و زبر کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں اور خود زیر ہو جاتے ہیں۔
ایک آدمی نے شیطان کو کنکریاں ماریں اور دوچار جیب میں رکھ لیں کہ گھر جا کے ابا جان کو مار لیں گے۔
یہ صرف لطیفہ نہیں حقیقت بلکہ تلخ حقیقت ہے۔ ہمارے گھر ”شیطان کا گھر“ بن چکے ہیں۔ ہمارا دل شیطان کا ٹھکانہ اور آشیانہ ہے۔ ہم شیطان کے دوست بنے ہوئے ہیں دنیا میں اتنی شیطانیاں عام ہیں۔ شرافت کا تو کوئی جہان ہی نہیں ہے۔ اب تو شیطان اور شیطان کے سپاہی بڑے آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کا کام خود انسانوں نے سنبھال لیا ہے۔
ایک اور عجب روایت ہمارے ہاں ہے کہ ہم چاند دیکھنے کے معاملے میں بہت حساس ہیں ہر سال اس موقع پر ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے کئی دفعہ ہمارے ملک میں کئی کئی عیدیں منائی گئی ہیں۔ ایک ہی شہر میں کچھ لوگ عید کی نماز پڑھ کر آرہے ہوتے ہیں اور کچھ کا روزہ ہوتا ہے۔
حج کے سلسلے میں بھی ہم عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔ حج تو مکہ مکرمہ میں پڑھا جاتا ہے اور وہ گیارہ ستمبر کو پڑھ لیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں حج بارہ ستمبر کو ہے اور ہم یہ دن حج کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔
یہ عجیب دن ہے۔ ہزار دنوں کا ایک دن آج گیارہ ستمبر ہے۔ بابائے قوم قائداعظم کا یوم وفات ہے۔ وہ چلے گئے اور ہمیں کس کے حوالے کر گئے۔ میرا دل کہتا ہے کہ ان کے بعد ان کی بہن ان کی ہمسفر اور ہمراز بہن جسے ہم مادر ملت کہتے ہیں۔ یہ خطاب انہیں مرشد و محبوب مجید نظامی نے دیا تھا۔ وہ ایڈیٹر نوائے وقت رمیزہ نظامی کے بقول نوائے وقت کے معمار ہیں اور بانی حمید نظامی تھے۔ انہیں وقت نے مہلت نہ دی۔ نوائے وقت کو ایک قومی اخبار بنانے میں مجید نظامی نے جوانی میں نوائے وقت کے لئے حمید نظامی کی ہدایت پر ایڈیٹر بن کر کمال کر دیا۔ اسی عمر میں ان کی صاحبزادی رمیزہ نظامی ایڈیٹر بنی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں بہت موقعہ ملے گا کہ وہ نوائے وقت کی مزید تعمیر کر سکیں گی۔ وہ ایک باصلاحیت اور بہادر خاتون ہیں اور جانتی ہیں کہ انہیں ورثے میں کتنی نعمت ملی ہے۔ اس نعمت کو سب کے لئے انعام بنا دینا ان کا فرض ہے اور وہ اپنا یہ فرض پورا کریں گی۔
میں یہ بتا رہا تھا کہ قائداعظم کے بعد مادر ملت کو گورنر نرل بنا دیا گیا ہوتا تو آج پاکستان کی تاریخ اور تقدیر مختلف ہوتی مگر پاکستان کا نقشہ وہی ہوتا جو تھا۔ وہ جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں تو مغربی پاکستان والوں نے کیا کیا؟ جہاں قائداعظم کا مزار ہے اور جہاں مادر ملت نے زندگی گزار دی۔ اب یہاں مادر ملت کا مزار بھی ہے۔
آخر کیوں ایسا ہے کہ دھاندلی بھی مغربی پاکستان میں ہوتی ہے اور اب مغربی پاکستان کو پاکستان بنا لیا گیا ہے؟ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ خود یہاں رہنے والے اسے اپنا وطن نہیں سمجھتے۔ کوئی آدمی پاکستان کے لئے اچھے خیالات نہیں رکھتا۔ یہ خاص لوگوں کی بات ہے ورنہ عام لوگ اب بھی اپنے اس پاکستان پر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں اور قربان ہو رہے ہیں۔ ہمارے شہدا بہت زیادہ ہیں۔ تمام ملکوں سے زیادہ قربانی دینے والے ہمارے ہاں زیادہ ہیں نامور نوجوان شاعر عباس تابش نے کہا۔
عجب لوگ ہیں یہ خاندان عشق کے لوگ
کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے
مشرقی پاکستان کی ہم سے علیحدگی کی اور بھی وجوہات ہوں گی مگر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ”مغربی پاکستانیوں“ نے مادر ملت کو ہروا دیا۔ یہ دکھ مادر ملت اور ان کے کئی شاندار بیٹے اپنے دل میں لئے مر گئے۔ اب باقی یہاں کیا رہ گیا ہے۔
ہمارے سپہ سالار اعظم جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ہم دشمن کا قرض اتارنا بھی جانتے ہیں تو کب یہ قرض اترے گا۔ مشرقی پاکستان پھر واپس آسکے گا۔ ہم نے تو مغربی پاکستان کو پاکستان بنا لیا۔ ہم سیاسی طور پر اور معاشی طور پر کروڑوں ڈالر کے مقروض ہیں۔ یہ قرض کہاں جاتا ہے۔ خدا کی قسم لوگوں کے لئے لیا گیا یہ قرض لوگوں پر خرچ کیا گیا ہوتا تو آج ہم ایک غریب اور بدنصیب ملک نہ ہوتے۔
ریٹائرڈ جنرل جاوید عسکری دانشور ہیں۔ جنوئن دانشور وہ کہتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم ایک سیاسی جوکر ہے۔ پھر بھی ہمارے حکمرانوں کو انگلیوں پر نچا رہا ہے۔ ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے حکمران کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے ڈرتے تھے۔ ایسے حکمرانوں سے کسی غیرت عزت والے اقدام کی توقع ہی نہیں ہے۔ یہ بات جنرل صاحب نے اسد اللہ غالب کی تقریب میں کہی۔
پاکستانی مودی سے نفرت کرتے ہیں مگر وہ مودی کے یار سے بھی محبت نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں مودی سے کوئی ڈر خطرہ نہیں ہے مگر مودی کے یار سے لوگ مایوس ہیں۔ مایوسی خوف سے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل جاوید نے بڑے درد اور دھڑلے سے کہا کہ دشمن بھی صاحب کردار ہو تو مزا آتا ہے مگر میں جنرل صاحب سے پوچھتا ہوں کہ ہمارا دوست چین تو صاحب کردار ہے تو پھر ہم کیوں صاحب کردار نہیں ہیں۔ جنرل صاحب نے اس طرف اشارہ کیا تھا۔
آج کے زمانے میں ”وار آف ورڈز“ چل رہی ہے تو ہم بدلتے کیوں نہیں۔ الفاظ بھی اس طرح استعمال ہوں کہ جیسے ہم لڑ رہے ہیں۔ مودی ایک بے وفا آدمی ہے۔ وہ بھارت سے بھی وفا نہیں کرے گا اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے بھی وفا نہیں کرے گا۔ جسے وہ اپنا یار بنا کے دھوکہ دے رہا ہے؟ وہ کشمیر میں فیل ہو گیا ہے بھارت بلکہ ساری دنیا میں رسوا ہو گیا ہے مگر پاکستان کو پسپا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے حکمران ”مودی کے یار“ کیوں بنے ہوئے ہیں۔ مودی جیسے لوگ دشمنوں کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے ”دوستوں“ کو برباد کر دیتے ہیں۔ مودی کے یاروں کو یہ حقیقت کبھی تلخ حقیقت نہیں بننے دینا چاہئے۔
حج کے موقعے پر ”مودی کا یار“ یاد آیا؟
Sep 12, 2016