ہمارے منطقی دوست حضرت دل گیر کا کہنا ہے...کہ اگر بچے واقعی قوم کا ”قیمتی سرمایہ“ ہیں تو پھر اس سرمائے کو ملک میں آنے سے کیوں رو کا جاتا ہے؟ہم نے انہیںلاکھ سمجھایا کہ زیادتی ہر چیز کی بُری ہوتی ہے لیکن ان کی بس ایک ہی رَٹ ہے...”یا تو بچوں کو سرمایہ نہ کہو یاپھر قوم کے بے لوث” سرمایہ کاروں“ کے حوصلے پست نہ کرو۔اب ملک میں ایک ہی تو سرمایہ کاری رہ گئی ہے، تم لوگ اس کے بھی پیچھے پڑے ہوئے ہو۔آخر کب تک” ایم او یُوز“ پر بہلتے رہوگے؟“دل گیر صاحب کا یہ بھی موقف ہے کہ ہر شخص ہر شے کی کثرت سے نہیں گھبراتا اور پھر بچے تویقیں محکم اور اس سے بھی زیادہ”عمل پیہم“کی زندہ مثالیں ہیں۔ثبوت کے طور پروہ راس الخیمہ کے ایک شہری سلیم جمعہ مبارک کا نام لیتے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے اخبار”الاتحاد“ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 40 سالہ مبارک کے 27 بچے ہیں اور ابھی اس کے حوصلے بلند ہیں۔وہ سینچری بنا کر ”محبت فاتح عالم“ کے پیغام کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔مبارک ایک مسجد میں موذن ہے اور اس کی مالی حیثیت بھی کمزور ہے لیکن وہ ایک عملی انسان ہے محض اذانوں پر گزارے کا قائل نہیں بلکہ ٹھوس کام کرتا ہے اپنی”ملت بیضا“کو بیضہ¿ مرغ کھلا کھلا کر پالتا ہے۔جناب دل گیر عین اس دن یہ بے تکی باتیں کررہے تھے جب خدا کے بندے دنیا بھر میں خاندانی منصوبہ بندی کا دن منارہے تھے۔بیویوں کی تعداد کے مسئلے پر بھی ہمارے اور ان کے نظریات میں ایک اور چار کا تضاد ہے۔ہمارا کہنا ہے کہ آج کل ایک نہیں سنبھلتی۔اچھے خاصے گھر کو”اڈیالہ جیل“میں تبدیل کردیتی ہے ،پھربھلا کون دوسری، تیسری اور چوتھی کے ہاتھوں کھلم کھلا دہشت گردی کو دعوت دے گا؟یہ عورت کی حکمرانی کا دور ہے شوہر کتنا ہی با اختیار اور ”زردار“ کیوں نہ ہو فرمانبرداری سے بیوی کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔یہ فرمانبرداری جتنی کم ہو بہتر ہے۔تاہم دل گیر صاحب اس سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ جو بیویوں اوربچوںسے ڈرتا ہے اس کا ایمان کمزور ہے اور جس کا ایمان کمزور ہے.... وہ بس پورا کا پورا کمزور ہے۔آخر راس الخیمہ کے موذن مبارک کے ساتھ یہ مسئلہ کیوں نہیں؟اس نے بارہ سال کی عمر میں شادیوں کا مبارک سلسلہ شروع کیا تھا اور چالیس سال تک وہ گیارہ شادیاں کرچکا تھا۔اس میں شک نہیں کہ ایک وقت میں اس نے صرف چار بیویوں ہی پر قناعت کی لیکن وہ بڑی حسرت کے ساتھ اپنے اِس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ اگر شرعی کوٹے میں اضافے کی گنجائش ہوتی تو وہ اس کے مطابق اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کرتا۔نکاح پڑھواتے پڑھواتے اس کا یہ حال ہوگیا ہے کہ سوتے میں بہکتا بھی ہے تو یہی کہتا ہے”قبول کیا میں نے،قبول کیا میں نے!“عربوں کے بارے میں دل گیر صاحب کی رائے ہے کہ وہ بڑے وسیع القلب اور ”عریض الحرم“ہوتے ہیں۔بیویوں اور بچوں کو بار نہیں سمجھتے اس لئے ان کی تعداد پر کسی ”بار“(پابندی) کے روادار نہیں۔بقول دل گیر، یہ اسی فراخدلی کی برکت ہے کہ جب کبھی عرب شیوخ کسی مغربی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو قافلہ¿ حرم میں شمولیت کی خواہشمند اُن پر ٹڈی دل کی طرح حملہ آور ہوتی ہیں۔پھر انہوں نے پر جوش لہجے میں ایک خاص پوز دیتے ہوئے اقبال کا یہ شعر پڑھا
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں
ہم نے پوچھا”کس کی تقدیریں؟“بولے”بیویوں کی اور کس کی؟“ماضی کے ایک عرب حکمراں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کی بیگمات توبے شمار رہیں لیکن اولادیں صرف پچاس تھیں۔یہ اطلاع بہم پہنچا کر موصوف نے اس پر یوں تبصرہ کیا”اس کثرت اولاد کے معاشی فیوض پر غور کرو۔پچاس عدد بچوں کی خدمت پر کم از کم ڈھائی ہزار افراد تو ضرور مامورہوں گے۔گویا ہر شہزادے اور شہزادی نے پچاس غریبوں کو روزگار مہیا کیا۔اگر بادشاہ سلامت خدانخواستہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کر لیتے تو روزگار کی یہ ڈھائی ہزار اسامیاں کہاں سے میسّرآتیں؟اور اگر بعض امیروں کی دیکھا دیکھی کہیں غریب غربا بھی ضبط تو لید کی غلطی کر بیٹھیں تو بچارے صاحب حیثیت لوگوں کو اپنے بنگلوں،فیکٹریوں،ملوں اور مربعوں کےلئے سستی افرادی قوت کہاں سے فراہم ہوگی؟سب جانتے ہیں اگر افرادی قوت مہنگی ہوگی تو اس کے نتیجے میں قیمتیںبڑھیں گی اور اس کا اثر بھی آخرکارغریب غربا ہی پہ پڑے گا۔پس ثابت ہوا کہ حرکت میں برکت ہے اور یوں بھی جو خود دنیا میں آچکا ہے اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ دوسرے آنے والوں کی اینٹری بینڈ کر دے؟“ حضرت دل گیر کے یہ عجیب و غریب ارشادات تمسخر آمیز طنز کے ساتھ سن کر ہم نے اعدادو شمار کا سہارا لیا اور انہیں بتایا کہ آسٹریلیا میںہر عورت کے ہاں اوسطاً7ئ1بچے پیدا ہوتے ہیں،کینیڈا میں 6ئ1،برطانیہ میں8ئ1،بلجیم میں7ء1اور امریکہ میں 8ئ1بچے پیدا ہوتے ہیں۔جبکہ افغانستان میں 1ئ5، عراق میں 4، ملاوی میں6، پاکستان میں 6ئ2 اور بھارت میں 4ئ2بچے پیدا ہوتے ہیں۔اس وقت دنیا کی آبادی7ارب50کروڑ ہے اور اگر یہ اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2100ئمیں11ارب20کروڑ تک پہنچ جائے گی۔زمین پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی۔دل گیر صاحب نے بات کاٹتے ہوئے کہا ”میاں مجھے افریقی اور ایشیائی عورتوں کی ”زرخیزی“ پر فخر ہے جس کی بدولت ہم نہ صرف اپنے ملک میں اپنے کام خود کرلیتے ہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی چھوٹے موٹے کاموں میں بنی نوع انسان کی خدمت کےلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔پھر علامہ اقبال ےاد آگئے ،کیا خوب کہہ گئے ہیں
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جوکام دوسروں کے
اس کے بعد وہ بھی اعداوشمار پر اترآئے۔کہنے لگے”ریڈرس ڈائجسٹ“کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر دنیا کے تمام انسانوں کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو وہ ایک دوسرے کو چھوئے بغیرصرف چار سو مربع میل جگہ میں آسانی سے سماسکتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ آبادی کی وجہ سے اﷲ کے بندوں پر اﷲ کی زمین تنگ ہورہی ہے۔ہم نے کہا، ٹھیک ہے کھڑے تو ہوگئے لیکن کھائیں گے کیا؟بیویوں کے کو سنے؟اتنا غلّہ کہاں سے آئے گا؟اتنی ملازمتیں آسمان سے ٹپکیں گی؟بیماروں کا علاج کیسے ہوگا؟اسی لئے توہماری حکومت کا نعرہ ہے کہ دو بچے ہی اچھے۔یہ سن کر انہوں نے ہماری نرم ونازک ران پر ایک زور دار چپت رسید کرتے ہوئے پروفیسر اقبال عظیم کا یہ شعر پڑھا
تم نے پیغام کا مفہوم غلط سمجھا ہے
مقصد ِصاحبِ پیغام کو الزام نہ دو
ہم نے ایک ران کو سہلاتے اور دوسری کو بچاتے ہوئے ان سے عرض کیا”اچھاتو آپ ہی اس کا مفہوم سمجھا دیجیے۔“فرمایا اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت میں آپ کے گلشن میںدو سے زیادہ پھول نہ کھلیں۔بس اس حساب سے جتنا چاہیں دو کا پہاڑہ پڑھتے رہیں اور یہ دو بھی اس لئے کہے گئے کہ اگر ان میں سے ایک خدانہ کرے دانشور نکل آئے تو دوسرا گھر کا خرچ چلاسکے۔یہ نعرہ دانشوری اور میدان عمل کے درمیان توازن قائم رکھنے کےلئے دیاگیا ہے اور جہاں تک غلّے کا تعلق ہے ، میاں، ہر انسان اگر ایک پیٹ لے کر آتا ہے تو دو ہاتھ بھی لاتا ہے ۔اگرحضرت ِ اقبال عظیم کے شعر کا مطلب وہ ہے جو آپ کے تخریب کا رذہن میں ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جو ہمارے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ان کی شاہانہ پروڈکشن تو دو کے بعد بھی جاری رہے اور ہم جیسے خاک نشینوں کی عاجزانہ اور سالانہ پیشکش دو پر آکر رُک جائے؟اورآخری بات یہ کہ بالفرض دو اچھے بچوں کے بارے میںآپ کی بات صحیح ہے تو مجھے ممتاز مزاح گو (سعیدآغا) کے اس سوال کا جواب دیجیے جو انہوں نے اپنے ایک قطعہ میں کیا ہے کہ
ایک ایسا اَیڈ دیکھا ہے مرے بچوں نے ٹی وی پر
عجب تکلیف میں ہوں مَیں، کہ میرے چار بچے ہیں
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کون سے والے ہیں دو اچھے
حکومت کا ہے یہ نعرہ کہ د و بچے ہی اچھے ہیں