معرکہ حلقہ نمبر 120!

جب سے میاں نوازشریف ایوان اقتدار سے نکالے گئے ہیں غم و غصہ کی تصویر بن گئے ہیں۔ مجمع چاہے چند سو لوگوں کا ہو یا ہزاروں کا ‘ ایک ہی سوال وردِ زبان ہوتا ہے۔ مجھے کیوں نکالا گیا ہے؟ بات چونکہ دل سے نکلتی ہے اس میں وزن اور سوزو گداز ہوتا ہے اس لئے لوگوں کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔ راگوں کی زبان میں یہ لہجہ جوگ کے زیادہ قریب ہے البتہ ایک بات فکر مند کرتی ہے اگر سکھ گرو رام رحیم کی سزا پر چالیس کے قریب احتجاج کرتے ہوئے لوگ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ہیں تو انکی نااہلی پر صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں ہوئی۔ اگر مرا بھی ہے تو ایک طفلک جسے راجا پورس کے ہاتھیوں کی طرح انکے اپنے لشکر نے ہی روند ڈالا ہے۔ سوگوار ماں کے بین سننے سے کلیجہ دہلتا تھا۔ وہ تو بھلا ہو دامادِ اکبر کیپٹن صفدر کا جنہوں نے تھوڑی سی اشک شوئی کی ہے۔ فرماتے ہیں ”قافلہ جمہوریت کا وہ پہلا شہید تھا“ کاش وہ اس غازی کا نام بھی بتا دیتے جسکی پجارو کے ٹائروں کے نیچے آکر وہ کچلا گیا تھا ۔ بعض لوگ اسے ظالمانہ مذاق کہتے ہیں لیکن اعجاز الحق کی بات کا اعتبار کیا جائے تو وہ قابل معافی ہیں۔ اعجاز صاحب نے ایک ٹی وی ٹاک میں فرمایا ۔ کپتان صاحب آجکل بیمار ہیں، ہمیں علم نہیں تھا کہ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن جانتے ہیں ‘ اعجازالحق نے یقینا حق بات کی ہے ۔
میاں صاحب کو یقین ہے کہ اُن کیخلاف سازش ہوئی ہے۔ گو وہ سازشیوں کا نام لینے سے کتراتے ہیں لیکن بین السطور بہت کچھ پڑھا جاسکتا ہے‘ سمجھا جاسکتا ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ میاں صاحب سادگی میں یہ بات کرتے ہیں یا سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اُنکی خدمت میں اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ایک طاقتور امیر ترین وزیراعظم کے خلاف کوئی عام آدمی تو سازش کرنہیں سکتا۔ جن ہمہ مقتدر طاقتوں کی طرف اُن کا اشارہ ہے وہ سازش نہیں کرتیں فیصلے کرتی ہیں۔ حکم دیتی ہیں! کسی کو جرا¿ت نہیں ہوسکتی کہ حکم عدولی کرے، بالفرض ایسا ہی ہے تو پھر واویلا کرنے کی بجائے اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کیا آپ نیلسن منڈیلا ہیں؟ امام خمینی ہیں، ماﺅزے تنگ ہیں یا سرونسٹن چرچل؟ فرماتے ہیں۔ ترقی کا پہیہ روک دیا گیا ہے! کونسی ترقی‘ کیسی خوشحالی‘ اشیائے خوردنوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ، بیروزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے۔ بجلی کے نرخ دوگنے ہوگئے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔ چار سال میں 35 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا ہے گردشی قرضہ 600 ارب روپے ہوگیا ہے۔ کامیاب یا ناکام ہونا تو الگ بات ہے خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں! یہ پہلی حکومت ہے جس کا ساری دنیا میں سوائے چین کے کوئی دوست نہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ ترقی ِ معکوس ہے۔
اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوشتہ دیوار پڑھا نہیں جاسکتا؟ پھر یہ سب تگ و دو اور واویلا چہ معنی دارد؟وہ جو کہتے ہیں (Method In Madness) اس ہاو¿ہو‘ شوروشین کا مقصد ان فوجداری مقدمات سے بچنا ہے جو Sword of Democles کی طرح انکے سر پر لٹک رہے ہیں۔ ایک طویل عرصہ تک انہیں مقدمات کی صعوبتیں سہنا ہیں‘ قانونی جنگ لڑنی ہے۔ خوش قسمتی سے انکے پاس ملک کے نامور وکیلوں کی پوری پلٹن ہے جو بال کی کھال ادھیڑنے کا فن جانتے ہیں، مشیروں کی فوج ظفر موج ہے جو لوگوں کو رام کرنے کا گُر جانتی ہے۔ کس وقت کیا ڈرامہ کرنا ہے، کونسا روپ دھارنا ہے، مظلومیت کی چھاپ کو کتنا گہرا اور نمایاں کرنا ہے،ان تمام باتوں کا تجزیہ کیا جانا ہے۔اگر یہ کسی طور مقدمات سے بچ نکلے یا اُنہیں طول دینے میں کامیاب ہوگئے تو سیاسی واپسی بھی ہوسکتی ہے! لین دین کے ماہر ہیں، ہم خیال پارٹیوں یا سیاست دانوں سے ”مفاہمت“پہلے بھی ہوتی آئی ہے اب بھی خارج از امکان نہیں ہے صرف عمران خان ایسا شخص ہے جو کسی طور بھی ان سے سمجھوتہ نہیں کرے گا لیکن سادہ لوح خان کے اپنے مسائل ہیں۔ انکے لااُبالی پن کی وجہ سے کئی بیرونی اور اندرونی قوتیں مشوش ہیں۔ وہ بھی اپنی سیاسی بقا کیلئے قانونی جنگ لڑ رہا ہے ۔ اگر اُس کا ٹیکنیکل ناک آﺅٹ ہوگیا تو اس کا براہ راست فائدہ میاں صاحب کو ہوگا۔ زرداری کو رام کرنا اتنا مشکل نہیں ہوگا ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے وہ ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے۔ حلقہ این اے 120 کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
سادہ لوح خان نے کہا ہے یہ الیکشن ثابت کرےگا کہ لوگ شریف خاندان کے ساتھ ہیں یا عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں! کچھ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ حلقہ 21کروڑ عوام کی آواز ہے! یہ دلیل بھی غلط ہے اور تاثر بھی! یہ میاں نوازشریف کا اپنا حلقہ ہے ہر بار وہ یہاں سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کشمیری برادری کی نمایاں اکثریت رہائش پذیر ہے۔ گزشتہ تیس سال سے سرکاری خرچ پر ہی کئی تعمیراتی کام ہو رہے ہیں۔ رائے دہندگان کی اولاد کو نوکریاں ملی ہیں، پولیس ملازمین انکے بھرتی کردہ ہیں، پٹواری تحصیلدار الگ سے احسان مند ہیں، خدا وندان مکتب کا بس چلے تو ہر صبح درس کا آغاز ان کے نام سے کریں ”پیارے بچو! جس عمارت میں تم بیٹھے ہو، یہ میاں صاحب نے بنوائی ہے۔ یہ بنچ اور کرسیاں انکی دین ہیں۔ یہ بستہ جو تم بغل میں داب کر آئے ہو ان کا عطا کردہ ہے۔ سپاہی کو حوالدار انہوں نے بنایا ہے، پٹواری کو علم ہے کہ تحصیلدار صرف انکی نگاہ کرم سے بنایا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے انہیںکیا دیا ہے؟ کیا دے سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ لوگ چیونٹیوں کی طرح قطار بنائے جاتی امرا کی زیارت کرنے جاتے ہیں۔ زمان پارک کی ملحقہ سڑک آنکھیں بند کرکے عبور کرتے ہیں۔
-5عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ 29ہزار ووٹ باہر کے درج کرائے گئے ہیں، پٹھانوں کے شناختی کارڈ "With Hold"ہو گئے ہیں۔ حلقے میں نئی سڑکیں بن رہی ہیں، گلی محلوں کی نالیاں صاف کر دی گئی ہیں، ان میں گندہ پانی اب رکتا نہیں، فرفر بہہ رہا ہے۔ نوکریاں بک نہیں، ریوڑیوں کی طرح بٹ رہی ہیں۔ہر طرف سے ایک ہی صدا آ رہی ہے، چار سو ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے، اُٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، غربت و افلاس کے ستائے ہوے لوگ جب آنکھیں کھولتے ہیں تو انہیں عجیب منظر دکھائی دیتا ہے، ہر طرف دودھ اور گھی کی محاوراتی نہریں بہہ رہی ہیں۔ من و سلوٰی اتر نہیں برس رہا ہے۔ ”غریبی دشنام “ نہیں ایک اعزاز بن گئی ہے۔ ایک ماہ کی فالتو تنخواہ وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ صراط مستقیم کیا ہے؟ سنہری اصولوں میں کیا رکھا ہے! قومی فریضہ کس چڑیا کا نام ہے! لمحہ موجود!
زبان کٹ گئی مدح ستم گراں کرتے
ضمیر بک گئے اسباب مفلساں کی طرح
-6بالفرض کوئی معجزہ رونما نہ ہوا یا کسی آہنی ہاتھ نے حالات کی کلائی نہ مروڑی تو میاں نوزشریف یہ الیکشن آسانی سے جیت جائینگے یہ اسے بیس کروڑ عوام کی ”فتح“ قرار دیں گے۔ خان بابا دھاندلی کا شور مچائیں گے۔ بیگم کلثوم نواز علیل ہیں لندن میں زیر علاج ہیں۔ معین قریشی بھی اسی عارضے کا شکار سنگاپور میں علاج کروا رہا تھا چند ماہ وزارت عظمیٰ نے تریاق کا کام کیا۔ وہ بیس سال تک زندہ رہا۔ ایک مرتبہ اسلام آباد کی سرسبز پہاڑیوں پر بنے ہوئے ”صحت افزا مقام“ میں انہیں پہنچنے دیں پھر دیکھیں! اللہ تعالیٰ انہیں عمر خضر عطا فرمائے گا۔

ای پیپر دی نیشن