”توہین عدالت“ ہوئی یا نہیں البتہ عوام میں عدلیہ کی 'عزت افزائی' بہت ہوچکی ہے۔ ”آزاد عدلیہ“کو اس کے اپنے محافظ روزانہ ’فتح‘ کر رہے ہیں۔ کسی بیرونی حملہ آور کی ضرورت نہیں رہی! جب گھر کے بچے ’شیر دلیر‘ خود ہی یہ کام اپنے ذمے لے چکے ہیں۔ عدلیہ اپنی ’توہین‘ کے بدقسمت معاملے میں ’خود کفیل‘ ہوگئی۔ جب وکلا ’گھر کابھیدی بن کر لنکا ڈھانے پر تل جائیں‘ تو دوش کس پر دھریں۔ وزیراعظم کو نااہل کرو تو وہ سڑکوں پر شور مچاتا ہے، ڈپٹی چئیرمین نیب خود ملزم ہے۔ کوئی نیب کا قانون ہی ختم کردیتا ہے۔ حساب مانگنے پر ادارے کو تالا لگادیا جاتا ہے، جواب طلبی پر درخواست گزار سے ملی بھگت کا الزام سہنا پڑتا ہے۔ عجب ملک ہے قانون کا اطلاق جس پرکریں وہ پتھر اٹھالیتا ہے۔قلندر لا ہوری علامہ اقبال نے اسی کرب کو شعر کی زبان دی تھی۔ ....
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر وتدبر کا سلیقہ
بار اور بینچ ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جو مل کر عدالتی نظام کی گاڑی کو رواں دواں رکھتے ہیں جب اعضا ئے بدن ہی بغاوت کر دیں ایک عضو ہی دوسرے کو کھائے تو جسم کہاں جائے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ملتان بینچ کے صدر شیر زمان قریشی اور جسٹس قاسم خان میں تلخ کلامی ’بار‘ اور’بنچ‘ کی باہمی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ نظام عدل کی تباہی اور قانون کی بالادستی کو سربازاررسوا کرنے کا تاریک باب رقم ہوا۔ شیر زمان قریشی کے حمایتی وکلاکا خیال ہے کہ منصف اعلیٰ یعنی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کا پانچ سطری حکم ان کی جیت ہے۔ قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے وکلاءاور پاکستانی بھی اس خیال کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سیاسی وکلا جیت کی مالا گلے میں ڈال چکے جنہیں نظام عدل کودھونس دکھانے کے الزام کابرسوں سے سامنا ہے۔
’قانون کی حکمرانی‘ کے پاسبانوں میں اس قبائلی جنگ کا منطقی انجام سمجھنے کیلئے وکلااور عدلیہ کے متحارب موقف کا جائزہ لازم ہے۔ وکلا یہ ’جائز ‘موقف اپناتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدلیہ میں ایسے جج زیادہ ہیں جن کی قابلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ عدلیہ فریاد کناں ہے ضلعی عدالتوں میں دیوانی، ایڈیشنل سیشن اور سیشن جج صاحبان کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات کے پیچھے ا صل راز مرضی کا فیصلہ لینے کی ضد ہوتی ہے۔ وکلا کے سامنے جج کا ’حرف انکار‘ انہیں ”مشرف“ بنا دیتا ہے۔ ملتان واقعہ پر عدالت عالیہ لاہورکے منصف اعلیٰ سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ تشکیل پایا۔ ملتان ہائیکورٹ بار کے صدر شیر زمان قریشی کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب ’فرمایا‘ گیا۔ بار ایسوسی ایشنز کے عہدیدار متحرک ہوئے۔ شیر زمان ایڈووکیٹ کو فل بنچ کے روبرو پیش ہونے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انکے صاف انکارپر عدالت نے شیر زمان قریشی کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دے دیا جس کےلئے ایک چوکیدار کی درخواست پہ حکم نامہ جاری کیاگیاعدالتی کارروائی کے دوران کارکن وکلا نے’تنگ آمد،بجنگ آمد‘ چیف جسٹس کے کمرہ عدالت پر ہی یلغار کردی اس پر قبضہ کرلیا' نازیبا نعرہ بازی کی۔ دوسری پیشی پر’حامیان شیر زمان قریشی‘ نے انصاف کی عمارت کے دروازے ہی توڑ ڈالے۔ جج صاحبان کیلئے داخلی دروازے پرپتھروں کی بارش کردی گئی۔ پولیس نے ہمیشہ کی طرح ’جوابی کاروائی‘ کی۔ پوری دنیا نے ’آزاد عدلیہ‘ کا تماشا سربازار دیکھا۔ یہاں سے کہانی عدالت عظمی پہنچی۔ بعض عہدیداروں کی جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کے بعد شیر زمان نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے شیر زمان کی درخواست پر کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ سے ہنگامہ آرائی کی رپورٹ طلب کی۔سپریم کورٹ نے اپنی آبزرویشن میں توقع ظاہر کی کہ لاہور ہائیکورٹ کا فل بنچ سپریم کورٹ کے فیصلے تک اپنی کارروائی موخر کردیگا۔ اس دوران شیرزمان قریشی کا نہیں ایک اجتماعی معافی یا افسوس نامہ جمع کرایاگیا۔سپریم کورٹ کے ججز نے تمام واقعہ پر اظہار افسوس کیا۔ وکلا کے ایک حلقے نے اس پر یوں تبصرہ کیاکہ توہین عدالت اور توہین وکالت میں سے عدالت اور وکالت دونوں ہارجائینگے اورتوہین جیت جائیگی۔ کچھ ایسا ہی ہوا۔
ایک کہانی اور بھی ہے۔ ملتان میٹروکا روٹ راتوں رات تبدیل کردیا گیا۔ٹھیکیداراس عمل میں شہید ہونے والی مسجد کی ازسرنو تعمیر میں ٹھیکدارکی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ملتان کے وکلا نے ملتان بینچ کے جسٹس قاسم خان سے اس پر رجوع کیا۔ خود جسٹس قاسم خاں ذاتی طورپرنیک سیرت، مذہبی رجحانات کے حامل ہیں۔ یہ بات بھی زبان زدعام ہے کہ دور طالب علمی میں ان کا شمار بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندہ طلبہ تنظیم انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی رہنما¶ں میں ہوتاتھا۔ ملتان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے آئے اور ہزاروں برس قدیم اس شہر ملتان کو دل دے بیٹھے۔ پھر یہیں کے ہورہے۔ وہ ملتان بار کے سکریٹری جنرل بھی رہے ہیں اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ وہ شکرگڑھ سے ملتان آئے تھے۔ سابق وفاقی وزیرانورعزیز چودھری کے فرسٹ کزن مرحوم ضیاالحق کے فرزند ارجمند جبکہ اردو شعر و ادب کے عاشق زار چودھری ریاض قدیر کے سگے بھتیجے ہیں۔ وہ ریاض قدیر جنہیں قدیم وجدید شعرا کے ہزاروں نہیں لاکھوں شعر ازبر ہیں داستان گو ریاض قدیر شبینہ محافل میں پرشکوہ داستان گوئی کی قدیم روایات کے امین ہیں۔ جب کبھی عالمی دوروں سے پاکستان آتے ہیں تولاہور اور اسلام آباد کی اشرافیہ ان کیلئے چشم براہ ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جسٹس قاسم خان اورملتان بارکے صدرشیر زمان قریشی بے تکلف دوست ہواکرتے تھے۔ مسجد کے حوالے سے جسٹس قاسم خان کی عدالت میں درجنوں وکلا پیش ہوئے۔ کسی اورمقدمے میں شیر زمان قریشی بھی عدالت میں موجود تھے۔ وکلا نے مسجد کے نیک کام میں انہیں بھی اپنے ہمراہ کھڑا کرلیا۔ جسٹس قاسم خاں نے سماعت کے آغاز پر آبزرویشن دی کہ جن وکلا کے اس مقدمے میں وکالت نامے موجود نہیں ہیں وہ بیٹھ جائیں۔ شیر زمان قریشی روسٹرم پرموجود تھے۔تلخ کلامی تب شروع ہوئی جب جسٹس قاسم خاں نے وکالت نامہ نہ ہونے پر انہیں روسٹرم چھوڑنے کی ہدایت کی۔
بدقسمتی! جسٹس قاسم خاں نہیں، اب چیف جسٹس سید منصور علی شاہ فریق ہیں جنہوں نے ملتان بینچ کے چوکیدار کی درخواست پرشیر زمان قریشی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ معطل کرکے تمام مقدمات لاہور پرنسپل سیٹ پرمنتقل کردئیے گئے۔ ساہیوال ڈویژن کے سائلین کو حصول انصاف کیلئے بہاولپور بنچ سے رجوع کرنے کا حکم دیا گیا۔ ملتان بنچ کی معطلی اورساہیوال کے سائلین کے مقدمات کی بہاولپورمنتقلی کو آئین اور قانون کی سنگین خلاف ورزیاں قرار دیا گیا ۔
چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ واقعی ’منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے‘۔ چوٹی کی عالمی درس گاہوں سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ پاکستان واپسی پر لا فرم قائم کی، پھر مڑ کر پیچھے نہ دیکھا۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ سے شکوہ ان کے اس حکم پر کیا جارہا ہے جس میں ضلعی عدلیہ کے جج صاحبان عدالت میں ہائی کورٹ کے ججوں والا بھاری بھرکم گاﺅن یا چوغہ زیب تن کرنے کے پابند کردئیے گئے۔ وکلا حلقوں کا اصرار ہے کہ بیشتر اضلاع میں گرمی کے موسم میں بجلی بھی نہیں ہوتی۔ عام کپڑوں میں جہاں بیٹھنا محال ہو وہاں یہ بھاری چوغہ وہ بھی ملتان کی گرمی میں پہننا، مشکل ہے۔ جاری عدالتی بحران میں سب سے دلچسپ اورگھناونا کردار نام نہاد روشن خیال، آئین اور دستورکی سر بلندی کے راگ الاپنے والا گروہ اداکررہا ہے جنرل مشرف کے پی سی او پر جج بننے والے اور پیشہ وارانہ اعتبار سے نااہل وکلا کو ذاتی مفادات اور بے راہروی نے ایک چھتری تلے اکٹھا کیاہوا ہے۔ اب یہ مافیا کے انداز میں لاہور کے وکلا کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ مہذب ممالک میں نظام عدل قانونی اصولوں اور نظریات کی آبیاری کرتا ہے، ذاتی رنجشوں، انا، ضد اورمن پسند توجیہات کی زنجیر میں جکڑا نہیں ہوتا۔
چوہدری شجاعت نے پاکستان کے حالات وواقعات میں سب سے صادق قول یہ کہہ کر متعارف کرایا کہ”مٹی پا¶“۔ فریقین کی اس لڑائی میں ’رگڑا‘ عامل وکلاءاور انصاف کے در پر دادرسی کی بھیک مانگتے سوالیوں کو ہی لگتا ہے۔
ڈر یہ ہے کہ یہ روایت چلے گی تو بات کہاں پہنچے گی۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ خاندان کے زیادہ سے زیادہ افراد کو وکیل بنائیں کیونکہ پھر آپ ہر قانون ضابطے سے بالا تر ہیں۔ کوئی ادارہ آپ کی گرفت نہیں کرسکتا۔
ان دل گداز لمحوں میں سید والا ' عباس اطہر سب کے پیارے شاہ جی یاد آتے ہیں جو آزادءعدلیہ کی جنگ کے عروج پر کہا کرتے تھے کہ افتخار چودھری عدلیہ میں "یونٹی آف کمانڈ" کا فوجی فلسفہ لا رہے ہیں وہ نظام انصاف کو تباہ کرکے رکھ دے گا۔
شاہ جی فرماتے تھے کہ جب ہائی کورٹ بار سپاہِ انصاف کی 'فوجی کور' بن جائیں گی تو ہر وکیل جرنیل بن جائے گا اور پھر جج صاحبان کا کوئی والی وارث نہیں ہوگا اور سائلین 'ر±ل' جائیں گے۔