ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد اکتوبر1979ءمیں جنرل ضیاءالحق نے اس ملک میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ سیاسی سرگرمیاں وطن عزیز میں انتشار پھیلانے کا باعث ٹھہراکر سنگین جرم میں تبدیل کردی گئیں۔ میرا اصرار ہے کہ اس کے بعد سے اس ملک میں سیاسی جماعتیں کبھی بحال ہی نہیں ہوئیں۔ محض Electables کے گروہ ہیں۔ ان میں سے اکثر کبھی محمد خان جونیجو اور بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو یا نواز شریف کی قیادت تلے جمع ہوکر اقتدار میں ”باریاں“ لیتے رہے۔ ان دنوں ایسے Electables کا ایک مو¿ثر گروہ عمران خان کی تحریک انصا ف میں بھی جمع ہوچکا ہے۔ یہ جماعت اگر آئندہ انتخابات میں شاندار اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو بھی گئی تو ”سیاسی“ حکومت نہیں بناپائے گی۔ ”ڈنگ ٹپاﺅ“ انتظام جاری رہے گا۔
اس ملک کی بقائ، سلامتی اور دور رس معاشی معاملات سے متعلق حتمی فیصلے ہماری ریاست کے دائمی ادارے ہی کیا کریں گے۔ فیصلہ سازی کےلئے نام نہاد ”عوام کی بھرپور شراکت کے ساتھ“ کوئی متبادل بندوبست میری ناقص رائے میں ابھرتا نظر نہیں آرہا۔
ریاست کے دائمی اداروں کی بالادستی کا ایک توانا ”شریک“ اب متحرک عدلیہ کی صورت بھی ابھر آیا ہے۔ ہمارے سیاست دان، خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، اپنی نجی محفلوں میں ریاست کے مختلف اداروں کی اجتماعی بالادستی کے سامنے قطعی بے بس ہوئے نظر آتے ہیں۔
اسلام آباد کی کسی بھی محفل میں چلے جائیں تو وہاں موجود اپنے ”آبائی حلقوں“ میں خاندانی اعتبار سے بہت ہی تگڑے مانے Electables ان دنوں صرف یہ جاننے کو بے چین نظر آتے ہیں کہ وہ ”جسے ہوکر رہنا ہے“ نومبر 2017ءمیں ہوگا یا مارچ 2018ءمیں۔
یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وطن عزیز کو ایک بار پھر صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت کی ضرورت ہے۔ کم از کم دو یا تین سال اس حکومت کو ملک کے لئے ناگزیر ٹھہرائے مگر عوامی سطح پر نامقبول اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ بدعنوان سیاست دانوں کے کڑے احتساب کے بعد ریاست کے پولیس اور مالیہ جمع کرنے والے اداروں کو ”انقلابی اصلاحات“ کے ذریعے تگڑا اور خودمختار بنانا ہوگا۔ توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے Structural Reforms اور معاشی ترقی کے لئے CPEC جیسے منصوبوں پر یکسو توجہ۔
ہماری اشرافیہ کو اگر ایک بار پھر صاف ستھرے ٹینکوکریٹس کی یاد ستارہی ہے تو میں دو ٹکے کا رپورٹر اس میں کوئی رکاوٹ ڈال ہی نہیں سکتا۔ جان کی امان پاتے ہوئے صرف ایک سوال اٹھاتا ہوں کہ ”آئین کو برقرار رکھتے ہوئے“ ٹیکنوکریٹی بندوبست کیسے متعارف کروایا جائے گا۔ اس آئین کے ا ٓرٹیکل 190کا حوالہ دیتے ہوئے لیکن مجھے خاموش کروادیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی بحث کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ 1985ءسے کسی نہ کسی صورت ہمارے سیاسی منظر نامے پر چھائے Electablesاگر آئندہ کچھ سالوں کے لئے ملکی معاملات کے حوالے سے بے اثر اور لاتعلق ہونے کو تیار بیٹھے ہیں تو انہیں ”شیر بن شیر“ والے مشورے دینے کی میں کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
بحیثیتِ صحافی مجھے فکر فقط خود غرض بنیادوں پر ا تنی لاحق ہے کہ جس بندوبست کا انتظار کیا جارہا ہے اس میں ”صحافتی آزادی“ کا رہا سہا بھرم بھی غارت ہوجائے گا۔ کسی اور ہنر کے ذریعے رزق کمانے کے قابل رہ گیا ہوتا تو یقینا یہ بات بھی دل وجان سے تسلیم کرلیتا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعد سے متعارف ہوئی ”صحافت“ وہ سب کچھ Deserveکرتی ہے جو اس کی ساکھ کو تباہ کرنے کے لئے Whatsapp سے ملی خبروں نے کیا ہے۔ صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس شاید اس انداز میں Media Managementکی ضرورت ہی محسوس نہیں کریں گے۔
ہمارا 24/7 مستعد ہونے کا دعوے دار میڈیا بہت ہی مناسب انداز میں "Regulate"ہوچکا ہے۔ اب باری ہے اخبارات کی۔ ان کے لئے ا یک ”نیا قانون“ تیار ہے جو صحافت کے دھندے سے وابستہ مجھ ایسے ”منگو کوچوانوں“ کو ان کی اوقات میں رکھے گا۔ میرے پاس ”حق گوئی“ کا ڈھونگ رچانے کی Spaceہی باقی نہیں رہے گی۔
انگریزی والا Enoughاب واقعتا Enoughہوچکا ہے۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات نے Electablesکو اقتدار کے کھیل میں تھوڑا بہت حصہ دینے کا جو بندوبست متعارف کروایا تھا اسے جنرل مشرف نے چند ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر برقرار رکھا تھا۔ یہ بندوبست مگر اب بہت تیزی کے ساتھ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمارے کسی سیاستدان کے پاس اسے بچانے کی ترکیب ہی موجود نہیں ہے۔ شکست خوردہ ذہن اپنے تحفظ کی کوئی ترکیب سوچنے کے ویسے ہی قابل نہیں رہے۔ ہم تم جنگل میں جارہے ہوں۔ اچانک ہمارے سامنے شیر آجائے تو وہی کچھ ہوگا جو شیر چاہے گا۔ ہمارے اعضاءجوارح ایسے مواقع پر خوف سے شل ہوجاتے ہیں۔
اسلام آباد کی محفلوں میں گزشتہ چند دنوں میں مجھے جو Electables ملے وہ بظاہر بہت طاقت ور نظر آتے ہوئے بھی ا نجان کے خوف سے حواس باختہ ہوچکے ہیں۔ان کی اکثریت نے بلکہ ”ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا“ والا رویہ اپنالیا ہے۔ ان کے پاس زمینیں ہیں۔کراچی،لاہور اور اسلام آباد میں محل نما گھر ہیں۔ کچھ جائیدادیں دوبئی اور لندن میں بھی خریدرکھی ہیں۔ خود کو کسی نہ کسی صورت متوقع ”کڑے احتساب“ سے بچاکر اس ٹیکنوکریٹی دور کے،جس کا انتظار ہورہا ہے،بیشتر مہینے وہ ”فیملی کے ساتھ“ غیر ممالک میں Chill کرنے کو ترجیح دیں گے۔ فکر مند صرف مجھ ایسے چند دیوانے رہ گئے ہیں۔ ”حق گوئی“ کو شعار بنایا تو بے روزگاری یا مضحکہ خیز حد تک اکثر قسطوں میں ملنے والی قلیل تنخواہ کو برداشت کرنا ہوتا تھا۔ 24/7 ٹی وی کی برکتوں سے دِین اور دُنیا ایک ساتھ سنوارنا ممکن ہوا۔ چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو والی عیاشی میسر ہوگئی۔ اس عیاشی کو برقرار ر کھنے کےلئے مجھے بھی گھمبیر اور پیچیدہ ریاستی معاملات کے بارے میں کھلے ذہن کے ساتھ چند سوالات اٹھانے کی عادت سے نجات پانا ہوگی۔ میرا یہ کالم وہ ”جسے ہوکر رہناہے“‘ کا دل وجان سے ہاتھ باندھ کر انتظار کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ اپنے ربّ سے فریاد ہے کہ مجھے اس ضمن میں ثابت قدم رکھے۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭