آج تک کسی نے ’’آمریت کے حسن‘‘ کی بات نہیں کی جو کرتا ہے جمہوریت کے حسن کی بات ہی کرتا ہے وہ بھی جو جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں اور وہ بھی جو اصل جمہوریت کے نفاذ سے اپنی سیاسی موت کو یقینی سمجھتے ہیں ۔یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ ہمارے ہاں جمہوریت سے محبت کرنے کا راگ الاپنے والے اور صبح و شام اس کا ڈھنڈورا پیٹنے والے نہ خود جمہوری مزاج رکھتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کی روح کو سمجھتے ہیں جہاں ان پر کوئی جمہوری قدغن لگنے یا گلے جہاں ان کی گرفت ہوتی دکھائی دے اسے بہ امر مجبوری قبول کرنے اور سیاسی مخالف کو اس کا مزا چکھانے کی ساری منصوبہ بندی کرنے والے زبانی کلامی اسے جمہوریت کا حسن کہہ دیں گے۔اختلاف رائے خواہ نامعقول سے نامعقول انداز میں سامنے آئے یہ اختلاف کرنے والا اسے جمہوریت کا حسن کہہ کر اپنی نا معقولیت کو چھپانے کی کوشش کرے گا۔ ہر قسم کی ہڑ بونگ،شور شرابہ اوردھینگا مشتی بلکہ بد اخلاقی بھی اسی زمرے میں شمار کی جاتی ہے کچھ نام نہاد دانشور اوران میں ایسے جو وطن عزیز میں انتشار پھیلانے اور یہاں معاملات کو بگڑتے دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں ایسی ہر کوشش یا عمل کو جمہوریت کا حسن قرار دے کر اپنی جعلی ’’عالی ظرفی‘‘ اور ’’ذہنی کشادگی‘‘ کا ابلاغ بھی کرتے ہیں اور وطن عزیز کے خلاف خبث باطن کی تسلی بھی۔ میں اس وقت ان تمام لوگوں سے ہمدردی کرتے ہوئے جو کسی غیر مرئی دبائو کے تحت جمہوریت کی تعریف اور اپنے مزاج ، منشا اور مفاد کے خلاف کسی فیصلے کو قبول کرنے کا اشارہ دیتے ہیں یا اعلان کرتے ہیں ان کی جمہوریت کے لئے خدمات کو پیش کرنا چاہتا ہوں جو معاشرے میں اپنے اثرات کے اعتبار سے ہرگز نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔اسی سلسلہ میں آمریت کے منہ پر جمہوریت کا غازہ لگا کر اقدامات کرنے والوں کا پلڑا ان حکمرانوں کے مقابلے میں جو اپنے آمرانہ مزاج کو جمہوریت کے میک اپ کی موٹی تہہ میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں بھاری ہی نظر آئے گا۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی آمر کے ایسے واہیات فیصلے کو جو اپنی ہیئت ، اثرات اور جمہوریت کے ٹھیکیداروں میں جرأت نہیں ہوتی جو ایسے آمر کو لعن طعن کرنے اور اس کومفلظات سنانے اس کو سزا دینے اور اس کے فیصلوں پر آمرانہ فیصلوں کے ٹیگ لگا کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں مگر اس آمر کے ایسے فیصلے جن کو جمہوری کہتے ہیں خود جمہوریت شرمندہ ہو بدلنے کی کیونکر جرأت کرسکتے ہیں۔
ماضی قریب میں آمریت کی نشانی جنرل مشرف کے سامنے جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے جس طرح این آر او کئے وہ جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے ۔میں یہاں ان این آر او کو نہ آمریت کا حسن کہنا چاہتا ہوں اورنہ ہی ایسے جمہوری حکمرانوں کو جن کی سیاست آمریت کی گود میں پلی ہو ان کا ماضی یاد دلانا چاہتا ہوں کیونکہ مفاد پرستی اور کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہوئی ایسی جمہوریت اور اس کے رکھوالوں کو سمجھانے یا ان کی غلطی یاد دلانے یا ان سے ان کی سیاسی حماقت پر شرمندہ کرنے کی ساری کوششیں بے نتیجہ رہیں گی مگر مشرف نے جمہوریت کے نام پر جو دو کام کئے ان کی اصلاح کے لئے یا ان کو آمریت کی نشانی سمجھ کر قومی وجود سے ان کو خارج کرنے کے لئے کسی بھی جمہوریت نواز میں ہمت نہیں یہ دونوں اقدام ’’ آمریت کے حسن‘‘ کی صورت میں ’’جمہوریت کے حسن‘‘ کے مقابلے میں زیادہ منفی اثرات مرتب کر چکے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔
مشرف نے اس نو مسلم کی طرح جس نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا اور مسلمان ہوتے ہی اذان دینے کی خواہش کی مولوی صاحب نے پہلے اس سے اذان سنی اور جب اس میں کوئی غلطی نہ دیکھی تو اخلاقی طور پر اس کی اسی خواہش کو پورا نہ کرنے کا مولوی صاحب کے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ اجازت دے دی نو مسلم نے اذان دی ۔اب اس میں ایک عجیب طرح کااعتماد آگیا تھا لوگوں کو متاثر ہوتے دیکھ کر وہ دوسری نماز سے پہلے اتنا بے صبرا ہو ا کہ بغیر نماز کے اوقات کے اذان دے دی اور پھر جب جی چاہتا مسجد میں جا کر لائوڈ سپیکر کھولتا اور اذان دے دیتا پورے محلے میں ایک ہیجان برپا ہوگیا ۔ اب نو مسلم نہ مولوی صاحب کی بات سننے کو تیار تھا اور نہ ہی محلے والوں کی ایسے میں اسے محلے سے ان غازی مردوں اور عورتوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی جو اذان اور نماز کے فلسفہ سے واقف ہی نہ تھے ان کا کہنا تھا اللہ کانام ہی لیتا ہے اس میں حرج کیا ہے وقت بے وقت اذان دینے سے کون سے نمازی مسجد کا رخ کرتے ہیں۔
مشرف نے بھی پوری دنیاکے جمہوری ممالک میں نافذ جمہوریت کو نظر انداز کرکے عورتوں کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے جو فیصلہ کیا اسی سے جمہوریت کی روح تو مجروح ہوئی ان بغیر انتخاب لڑے پارلیمنٹ کا حصہ بننے والی خواتین کی غالب اکثریت نے اس کے تقدس کو بھی پامال کر دیا۔ ان کے طریق انتخاب میں ہر سیاسی جماعت نے میرٹ کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔ہر پارٹی میں بااثر افراد کی بیویاں ، بیٹیاں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں یا دوسری رشتہ دار یا جن کے بعد یہ ہی رشتہ داری ہو سکے اِلا ماشاء اللہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں ۔پارلیمنٹ کے مزاج اس کے کردار اور ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب لڑ کر ووٹ مانگ کر دھاندلی کرکے یا دھاندلی کا مقابلہ کرکے انتخاب جیت کر اسمبلی پہنچنے اور کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی ابروئے چشم سے اسمبلی پہنچنے والے ہر اعتبار سے برابر ہو جائیں تو محنت اور شعوری جدوجہد کرکے آنے والوں کا استحقاق مجروع ہوتا ہے جسے شاید برداشت کر لیا جائے مگر ان مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین نے اپنی ’’یک نکاتی کارکردگی‘‘ جس کو اسمبلی میں موقع بے موقع شور مچانے کا ہی نام دیاجاتا ہے اور جو سیاسی جماعت کے کسی جیالے یا متوالے کے اشارے یا اشارے سے پہلے ہی معقولیت منطق،دلیل ، ارکان اسمبلی کے منصب سے وابستہ ذمہ داری یا وقار سبھی کو نظر انداز کرکے ’’ ہوٹنگ‘‘ کرنے تک خود کو محدود رکھنے یا اس حیثیت سے شہرت پانے والے ایسے ’’پارلیمنٹرین ‘‘کی جب تربیت کا اہتمام نہ ہو تو پھر جمہوریت منہ چھپاتی پھرے گی۔
مشرف کے اس اتنے بڑے غیر جمہوری بلکہ قوم کو برباد کرنے والے فیصلے کو ’’ ریورس‘‘ کرکے جمہوریت کی اصلی شکل کو جب تک سیاسی مفادسے بالا ہو کر قبول نہیں کیا جاتا اسمبلیاں بہت آسانی سے بننے والی ان ارکان کے شور شرابے سے محفوظ نہیں ہوسکتیں۔حیرت ہے اتنے بڑے غیر جمہوری اور جمہوری دنیا میں اتنے بڑ ے’’ بلنڈر‘‘ کے بعد خود کو جمہوری کہنا خود کو اور دنیا والوں کو دھوکا دینا ہے اگر یہ انتخاب سیاسی جماعتوں کی قیادت میرٹ پر کرتی ہر شعبہ کی نمائندہ خواتین کو جو واقعتا اسمبلی میں آ کر کچھ کنٹری بیوٹ کرتیں اپنی اپنی جماعت کی طرف سے دعوت دیتیں اور یہ غیر سیاسی اور قابل خواتین شور شرابہ کرنے کا اشارہ کرنے والے کو ایسی توہین کرنے پر اسمبلی کے فلور پر ہی مزا چکھا دیتیں تو پھر بھی اسے میرٹ پر قبول نہیں کیا جا سکتا البتہ ایک دلیل دی جا سکتی تھی کہ خواتین واقعتا لائق اور قابل ہیں تاہم یہ ایک تہائی والی بات اور اس حسن انتخاب پر جو مشرف اور اس کے بعد سیاسی جماعتوں نے کہا ہے میرٹ کی دھجیاں اڑانے کی ابتداپارلیمنٹ سے ہونے کی گواہی بن چکا ہے ۔ مشرف کا دوسرافیصلہ آئندہ کالم میں ملاحظہ فرمائیے