لاہور (فرخ سعید خواجہ) بیگم کلثوم نواز 12 اکتوبر 1999ء تک ایک گھریلو خاتون تھیں۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے جب ان کے شوہر کو وزارت عظمیٰ سے محروم کرکے لانڈھی جیل میں ڈال دیا تو ان کی سیاست کا آغاز ہوا۔ جیل میں شوہر سے ملاقات کرکے پارٹی رہنمائوں تک ان کی گفتگو پہنچانے کو ان کو ’’پرچی سیاست‘‘ کرنے کا طعنہ دیا تاہم جلد ہی بیگم کلثوم نواز میدان عمل میں نکل آئیں۔ ان کے داماد کیپٹن محمد صفدر نے بیٹے کا کردار ادا کیا۔ بیگم کلثوم نواز نے پہلا سیاسی دورہ 7 دسمبر 1999ء کو پشاور کا کیا جہاں انہوں نے مسلم لیگ (ن) خیبرپی کے کے جنرل سیکرٹری اقبال ظفر جھگڑا کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ (ن) کے عہدیداران و کارکنوں سے ملاقات کی۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سرانجام خان اور صدر خیبرپی کے پیر صابر شاہ سے ملیں۔ پیر صابر شاہ نے صوبائی کونسل کے اجلاس میں پیر صابر شاہ نے پختون رسم کے مطابق بیگم کلثوم نواز کے سر پر دوپٹہ رکھنے کی رسم ادا کی اور کہا کہ ہم نے سر پر دوپٹہ رکھ کر مرنے کی قسم کھائی ہے۔ بیگم کلثوم نواز کو مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن بنانے کی تجویز بیگم تہمینہ دولتانہ اور پیر صابر شاہ نے دی۔ وہ چاہتے تھے کہ بیگم کلثوم نواز پارٹی لیڈر شپ اور نواز شریف کے درمیان مشاورت کے لئے پل کا کام کریں‘ لیکن جو لوگ پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے انہیں یہ تجویز گراں گزری۔ بہرحال بیگم کلثوم نواز جیل میں نواز شریف سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو اور ان کے پیغامات کو پارٹی کی لیڈر شپ تک پہنچاتی رہیں۔ انہوں نے نہ صرف پارٹی کے ونگز یوتھ ونگ اور ممبران اسمبلی کے اجلاسوں سے خطابات بھی کئے بلکہ بار کونسلوں سے بھی خطابات کئے۔ ان کی سشتہ اردو اور شعلہ بیانی کے سیاستدان بھی گرویدہ ہو گئے۔ 12 اکتوبر کو یوم سیاہ منانے منانے کے لئے مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا کہ پشاور سے لاہور تک پرامن ریلی نکالی جائے۔ حکومت اس سے خوفزدہ ہو گئی اور بیگم کلثوم نواز کو 10 اکتوبر کو راولپنڈی میں مسلم لیگی خاتون رہنما بیگم نجمہ حمید کی رہائش گاہ پر غیر اعلانیہ نظر بند کر دیا۔ کارکنوں کی گرفتاریاں کی گئیں ان پر سخت تشدد ہوا۔ اس کے باوجود 12 اکتوبر کو ملک کے مختلف شہروں میں یوم سیاہ منایا گیا۔ بیگم کلثوم نواز نے 15 اکتوبر کو شاہدرہ میں مجلس تحفظ پاکستان کی تقریب کا اعلان کر دیا۔ انہیں روکنے کیلئے پولیس نے ماڈل ٹائون میں پہرے لگا دئیے تاہم بیگم کلثوم نواز، مخدوم جاوید ہاشمی، بیگم تہمینہ دولتانہ اور چودھری صفدرالرحمن کے ہمراہ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ پولیس نے ان کی گاڑی آدھے راستے میں روک لی اور کرین کے ذریعے ان کی گاڑی اٹھا لی اور اسے کئی گھنٹے تک اٹھائے رکھا۔ اس واقعہ کو بین الاقوامی شہرت ملی۔ کئی گھنٹے بعد انہیں ماڈل ٹائون پہنچایا گیا اور وہاں محبوس کر دیا گیا۔ بیگم کلثوم نواز نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام جمہوری کنونشن میں خطاب کیا۔ اس موقع پر نوابزادہ نصراللہ خان سمیت دیگر نامور سیاستدان بھی شریک تھے۔ بیگم کلثوم نواز کے ذریعے نواز شریف نے جمہوری سیاسی قوتوں کو آمریت کے خلاف مشترکہ جدوجہد شروع کرنے کیلئے جی ڈی اے سے مذاکرات کیلئے پیغام بھیجا۔ بالآخر ملک کی معروف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اے آر ڈی کا قیام عمل میں آیا جس میں پیپلزپارٹی بھی شامل تھی۔ بیگم کلثوم نواز نے مشرف آمریت کے خلاف جس طرح ملک گیر دورے کئے اور جدوجہد کی اس نے مشرف حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ نواز شریف کو جنہیں طیارہ سازش کیس میں سزا ہو چکی تھی، ملک سے نکال باہر کریں تاکہ سکون کے ساتھ حکومت کر سکیں۔ 3 دسمبر 2000ء کو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، پی ڈی پی سمیت دیگر جماعتوں پر مشتمل اے آر ڈی تشکیل پا گئی جس سے خوفزدہ ہو کر مشرف حکومت نے 10 دسمبر 2000ء کو نواز شریف اور ان کے خاندان کو جلاوطن کرکے اپنی جان چھڑائی۔ نواز شریف کو رہائی ملی تو ساری قوم نے اس کا سہرا بیگم کلثوم نواز کے سر دیا کہ ان کی جدوجہد رنگ لے آئی ہے۔ نواز شریف کی رہائی کے بعد دوبارہ گھریلو زندگی کی طرف لوٹ گئیں تاہم 28 جولائی 2017ء کو جب سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تو فیملی کے فیصلے کے مطابق وہ ایک مرتبہ پھر سیاسی میدان میں آئیں اور میاں نواز شریف کی خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 سے ضمنی الیکشن لڑا۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال والے دن ہی شومئی قسمت ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہیں علاج کے لیے لندن لے جایا گیا۔ اگرچہ وہ الیکشن 15 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے جیت گئیں لیکن انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانا نصیب نہ ہوا۔ وہ بیماری کیخلاف ایک سال 25 دن تک لڑتی رہیں اور گزشتہ روز وہ بیماری کیخلاف بالآخرطویل جنگ ہار گئیں اور وہاں لوٹ گئیں جہاں ایک دن ہم سب کو جانا ہے۔مشرف کے دور آمریت میں مسلم لیگ (ن) کی بیگم کلثوم نواز کی قیادت میں سیاسی جنگ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ معزول وزیراعظم نوازشریف کو طیارہ کیس میں سزا ہو جانے کے بعد ان کو موت کے منہ سے نکالنے میں جہاں بیگم کلثوم نواز کی دلیرانہ احتجاجی تحریک اور نوازشریف کے بین الاقوامی دوستوں نے اہم کردار ادا کیا وہاں ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی اتحاد اے آر ڈی کے قیام نے مشرف آمریت کو جھکنے اور نوازشریف کو جلاوطن کرکے جان چھڑانے پر مجبور کیا۔ اے آر ڈی کے قیام کے حوالے سے بیگم کلثوم نواز نے راقم الحروف کو بتایا تھا کہ میاں نوازشریف نے پارٹی رہنماوں کے لئے پیغام دیا کہ ملک کو درپیش بحران اور آمریت سے چھٹکارے کے لئے جی ڈی اے کے ساتھ رابطہ کیا جائے اور مشترکہ جدوجہد سے مشرف آمریت کا خاتمہ ہو۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) نے ظفر علی شاہ کو دبئی بھیجا جہاں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مخدوم امین فہیم اور فتح محمد حسنی بھی موجود تھے۔ ظفر علی شاہ نے وطن واپسی کے فوراً بعد مجھے اور دیگر پارٹی رہنمائوں کو پیپلزپارٹی سے ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا تاکہ میں میاں صاحب کو اس پیش رفت سے آگاہ کر سکوں اور ان کی ہدایات پارٹی کے دیگر اکابرین تک پہنچا دوں۔ پارٹی کے عہدیداروں کو جی ڈی اے سے مذاکرات کے متعلق صورت حال سے آگاہ کرنے کے بعد اکتوبر کے تیسرے ہفتہ میاں صاحب نے راجہ ظفر الحق، سرانجام خان اور ظفر علی شاہ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کی جس کا یہ مینڈیٹ تھا کہ وہ تمام سیاسی قوتوں کو ایک جمہوری ایجنڈے پر لے کر آئے۔ جس دن میاں صاحب نے اس کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ اس دن راجہ ظفر الحق نے چودھری شجاعت سے ملاقات کی تاکہ ان کی تمام منفی سرگرمیوں کے باوجود ان کو ان معاملات میں اعتماد میں لیا جائے تاکہ پارٹی اتحاد کو کسی بھی خطرے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ 20اکتوبر کو راجہ ظفر الحق، سرانجام خان، جاوید ہاشمی اور ظفر علی شاہ نے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم سے ان کی رہائش گاہ نکلسن روڈ پر ملاقات کی اور ملک کو درپیش بحران میں سیاسی جماعتوں کے مل کر پیش قدمی و جدوجہد کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا۔ 16نومبر کو مسلم لیگ کے اجلاس میں اس کی توثیق کر دی گئی۔ اس اجلاس میں 52ارکان شریک ہوئے لیکن چودھری شجاعت اور اعجاز الحق نہیں آئے۔ 26نومبر کو جی ڈی اے نے باضابطہ فیصلہ کیا اور جی ڈی اے کی جگہ اے آر ڈی کا قیام عمل میں لایا گیا اور ایک ضابطہ اخلاق طے کیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء میں نوابزادہ نصر اللہ خان، بے نظیر بھٹو، بیگم کلثوم نواز، مخدوم امین فہیم، مخدوم جاوید ہاشمی، راجہ ظفر الحق، ظفر علی شاہ، حامد ناصرچٹھہ، سید منظور علی گیلانی، سید نوبہار شاہ و دیگر شامل تھے۔ اے آر ڈی کے قائدین نے بیگم کلثوم نواز کی بصیرت، طرزعمل اور گفتگو کو شائستگی کا نمونہ قرار دیا۔