عنبرین فاطمہ
سابق وزیر اعظم’’ میاں محمد نواز شریف‘‘ کی شریک حیات ’’کلثوم نواز‘‘طویل علالت کے بعد لندن کے ایک نجی ہسپتال میں گزشتہ روز انتقال کر گئیں،وہ گلے کے سرطان میں مبتلا تھیں ،گزشتہ برس سے زیر علاج تھیں ،لندن مین ان کے بیٹے حسن اور حسین آخری وقت میںان کے پاس موجود تھے ان کے شوہر اور بیٹی کو جیل میں ان کے انتقال کی خبر دی گئی ،خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ کلثوم نواز کو پاکستان میں ہی سپرد خاک کیا جائے گا ۔نواز شریف اور مریم نواز کے جیل جانے کے بعد ان کی حالت میں کچھ بہتری آئی تو وہ اپنے بیٹوں کو پہچان رہی تھیں اور مریم نواز کا بار بار پوچھتی رہیں ۔کینسرکی جنگ لڑتے لڑتے وہ زندگی کی جنگ ہا ر گئیں یہ خبر نواز شریف اور ان کی فیملی کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے لئے افسوس ناک ہے ۔کلثوم نواز ایک بہادر خاتون تھیں انہوں نے مشرف دور میں آمریت کا جس طور مقابلہ کیا اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔سابق وزیراعظم کی اہلیہ کلثوم نواز لاہور میں 1950میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئیں، انہوں نے 1970میں اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن مکمل کی اور اردو ادب میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کرنے کے بعد یہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ان کے دو بہن بھائی ہیں ۔ 1999ء سے 2002ء تک وہ پاکستان مسلم لیگ (ن )کی صدر رہیں جبکہ انہیںتین بار 1990ء تا 1993ء ، 1997ء تا 1999ء اور 2013ء تا 2017ء تک خاتون اول پاکستان رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔کلثوم نواز کا سیاسی سفر بہت لمبا نہیں ہے لیکن انہوں نے آزمائش کے وقت میں استقامت کیساتھ پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پارٹی کو میاں نوازشریف کی گرفتاری کے بعدمتحرک رکھا ۔28جولائی 2017ء میں جب میاں محمد نوازشریف کو عدالت کی جانب سے نااہل کیا گیا تو خالی کردہ نشست NA120میں انہوں نے پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ۔یہ ایسا مرحلہ تھا جب مسلم لیگ (ن )نے کلثوم نواز کو خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب کے لئے بہترین چوائس قرار دیتے ہوئے ان کے کاغذات نامزدگی جمع کروادئیے،ابھی مہم کا آغاز ہونا ہی تھا کہ طبیعت ناساز ہونے پر طبی معائنہ کروانے کے لئے انہیں اچانک لندن روانہ ہونا پڑا جہاں ان کو گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی اس کے بعدمریم نواز نے اپنی والدہ کی جگہ مہم چلائی، اس قدرغیر موافق حالات کے باوجود NA 120کا الیکشن ایک مرتبہ پھر معرکہ ثابت ہوا اور مشکل وقت میںکلثوم نواز خوش قسمتی ثابت ہوئیں ۔کلثوم نواز نے ہمیشہ اپنی پارٹی کے کڑے وقت میں اس کا ساتھ دیا ۔ اس سے قبل بھی اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ایک آمر کے دور میں حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کیا ۔جب 1999میں نوازشریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا کر مارشل لاء لگانے کے بعد انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا تو اس دور میں بیگم کلثوم نواز نے پارٹی کو سنبھالا دیااور ایک ڈکٹیرکا بہادری کیساتھ مقابلہ کیا ۔ آمر یت کے دور میں تن تنہاکلثوم نواز نے جس طرح اپنی جماعت کے حق کے لئے آواز اٹھائی وہ قابل تحسین ہے ۔کلثوم نواز پورے ملک میں اپنے شوہراور اپنی پارٹی کے بیانیے کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے جگہ جگہ جاتی رہیں ایک بار تو یوں ہوا کہ وہ جب گھر سے نکلیں تو انہیں روکنے کے لیے ان کی گاڑی کولفٹر سے اٹھا دیا گیا مگر کلثوم نواز نے ارادہ ترک کیا اور نہ گاڑی سے اتریں کلثوم سمیتدیگر تین افراد کئی گھنٹے تک مبحوس رہے۔اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں بتائی جاتی ہے کہ مال روڈ کے نزدیک ان کی گاڑی کا راستہ روک کر جی او آر ون کے گوشے میں کرین کے ذریعے پہنچا دیا گیا ۔ڈرائیونگ سیٹ پر فیصل آباد کے صفدر رحمن ،پچھلی نشست پر بیگم تہمینہ دولتانہ ،مخدوم جاوید ہاشمی اور جاتی امراء کا ایک ملازم تھا ۔کلثوم نواز کو گاڑی سے نکالنے پر ناکامی پر سائلنسر میں کاغذ پھنسا کر انجن بند کر دیا گیا اور گاڑی کا اے سی بھی بند ہو گیا لیکن سخت گرمی میں گاڑی کی گھٹن میں دس گھنٹے خود کو مبحوس رکھ کر انہوں نے بتا دیا کہ میں ڈرنے والی نہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹنے والی ہوں ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدر رہ چکی کلثوم نواز کی سیاسی بصیرت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے جن دِنوں میاں محمد نوازشریف جیل میں تھے کسی نے کلثوم نواز سے پوچھا کہ ’’آپ کو اگر گرفتار کر لیا جاتا ہے تو آپ نے جو تحریک شروع کی ہے اس کو کون چلائے گا تو انہوں نے کہا کہ میں سارے امکانات ذہن میں رکھ کر گھر سے نکلی ہوں میری گرفتاری پر کارکن زیادہ شدت سے تحریک چلائیں گے ۔‘‘کلثوم نواز ہڈیوں کی تکلیف میں مبتلا رہیں اس دوران وہ امریکہ اور لندن میں آپریشن اور دیگر طبی علاج بھی کراتی رہیں ان سب مشکلات کے باوجود سابقہ خاتون اول کا سیاسی جماعت کی قیادت کرنا آسان نہ تھا ۔پارٹی کی خدمت کے لئے وہ ہمیشہ سرگرم اور پرعز م دکھائی دیتی رہیں ۔جس وقت میاں محمد نواز شریف کو پوری فیملی سمیت باہر کے ملک جانا پڑا تو اس وقت کلثوم نواز کے گھر کے اندر اور باہر میڈیا موجود تھا گھر سے روانگی کے وقت کسی رپورٹر کے سوال کے جواب میں کلثوم نواز نے کہا کہ ہم اس ملک کو چھوڑ کر نہیں جا رہے ہیں بلکہ ہمیں یہاں سے نکالا جا رہا ہے ،فی الحال ہمیں ہمارے رب نے اپنے گھر بلایا ہے اور ہم وہاں جا رہے ہیں ۔یوں کلثوم نواز اُس وقت بھی میڈیا کے سوالوں سے نہ گھبرائیں اور پُراعتماد طریقے سے جوابات دئیے ۔اگر ہم یہ کہیں کہ جب جب نوازشریف اور پارٹی پر برا وقت آیا کلثوم نواز ڈھال بن گئیںتو بے جا نہ ہو گا ان کی رائے کو پارٹی ور خاندان میں مقدم سمجھا جاتا تھا میاں شریف سمیت نوازشریف ان کی رائے پر سنجیدگی سے غور کیا کرتے تھے۔لیکن ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئیں جس کا آخری وقت تک مقابلہ کرتی رہیں لیکن ’’ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔