اپوزیشن جماعتوں کی رائے یہ ہے کہ بھاشا ڈیم چندے سے نہیں بن سکتا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما تو اپنے طنزیہ تبصروں میں بھاشا ایسے بڑے منصوبے کو چندوں کے ذریعہ مکمل کرنے کو دیوانے کا خواب قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بھاشا ڈیم پر دس سے بارہ ارب ڈالر لاگت آئے گی جو عطیات یعنی Donations اور چندوں سے حاصل کرنا ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی اور باقی سیاسی جماعتوں کی رائے بھی یہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کوئی ایسا بڑا منصوبہ نظر نہیں آتا جو اپنی مدد آپ کے تحت مکمل کیا گیا ہو اس لئے ہمارے ماہرین معیشت پالیسی ساز اپوزیشن والے شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ بھاشا ڈیم ایسا بڑا منصوبہ کنٹری بیوشنز کے ذریعہ کیسے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ان سب کے خیال میں غیر ملکی فنانسنگ کے بغیر اتنا بڑا پراجیکٹ مکمل کرنا ناممکن ہے۔
پڑوسی ملک چین سے اگر ہم کچھ سیکھ سکتے ہیں تو وہ اپنی مدد آپ کے تحت مکمل کئے گئے بڑے بڑے منصوبے ہیں۔ ماؤزے تنگ کے دور میں چین نے جو بھی معاشی کامیابیاں حاصل کیں وہ اپنی مدد آپ کے تحت منصوبوں کی تکمیل تھی۔ ماؤ کا خیال تھا کہ چین کی عظیم افرادی قوت اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ ماؤ نے ہیومن ریورس کو استعمال کر کے چین میں عظیم الشان منصوبے مکمل کئے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں چین نے اپنی مدد آپ اور خود انحصاری SELF RELIANCE کے تصور کے تحت اہم کامیابیاں حاصل کیں اگرچہ ماؤزے تنگ کا ’’آگے کی طرف عظیم جست‘‘ GREAT LEAP FOR WARD کا منصوبہ جو اس نے 1958ء میں شروع کیا تھا اور جس کا مقصد چین کو ایک زرعی معیشت کو صنعتی معیشت میں تبدیل کرنا تھا اور جس میں فولاد کی پیداوار کو کلیدی اہمیت دی گئی تھی ناکامی سے دوچار ہوا اور 1961ء میں ’’آگے کی طرف عظیم جست‘‘ کا پراجیکٹ ختم کر دیا گیا لیکن پراجیکٹ میں چین کی افرادی قوت کو متحرک کرنے میں بڑی مدد ملی۔ اس کے بعد 1966ء میں شروع کی گئی ثقافتی انقلاب کی تحریک بھی کامیاب نہ ہو سکی جس کا بنیادی ہدف محنت کی عظمت کو اجاگر کرنا تھا لیکن ماؤ کے دور میں ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تصورکو تقویت ملی۔ چینی قوم نے اپنی ناکامیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ اس وقت پاکستان کا قریبی دوست اور ہمسایہ ملک چین جو سپرطاقت بن چکا ہے کی کامیابیوں میں چینی قیادت کے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے فلسفے نے بنیادی کردار ادا کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر قابو پانے کے لئے پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیموں کی تعمیر کا جو انیشیوٹیو لیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اب بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے چیف جسٹس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان نے خاص طورپر بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے کم سے کم ایک ہزار ڈالر کا عطیہ دیں۔ ان کے خیال میں اس وقت بیرون ملک کم و بیش اسی لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جو اگر ایک ہزار ڈالر کی کنٹری بیوشن کریں تو آٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم مل سکتی ہے جس سے بھاشا ڈیم کی تعمیر ممکن ہو جائے گی اگر آٹھ ارب ڈالر نہ بھی ملیں صرف تین چار ارب ڈالر ہی مل جائیں تو بھی ڈیم کی تعمیر ممکن ہو سکے گی۔ اپنے وسائل سے بھاشا ڈیم جیسے بڑے پراجیکٹ کی تکمیل موجودہ حکومت خاص طورپر عمران خان کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس سے پہلے وہ لوگوں کی مدد سے شوکت خانم ہسپتال بنا چکے ہیں‘ میانوالی میں نمل یونیورسٹی بھی اپنی مدد آپ کے تحت ہی تعمیر ہوئی ہے۔ بھاشا ڈیم کے لئے وسائل اکٹھے کرنے کے لئے خان صاحب کو پاکستان کے اندر اور باہر بڑے پیمانے پر باثروت لوگوں کو متحرک کرنا ہو گا۔ بھاشا ڈیم اگر پاکستانی قوم اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس سے قوم میں زبردست اعتماد پیدا ہو گا۔ پاکستان آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دوسرے اداروں کی محتاجی سے نکل آئے گا۔
پاکستانی قوم کو بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے سیاسی اختلافات کو چھوڑ کر اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ اس سے بیرون ملک یہ پیغام جائے گا کہ ہماری قوم قومی اہمیت کے ایسے منصوبے کے لئے قربانی دینے کا جذبہ رکھتی ہے جس کا تعلق ہماری بقاء سے ہے۔ پانی کی قلت سے اس وقت ہر پاکستانی متاثر ہے۔ اوپر سے خشک سالی کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے ان حالات میں ایک بڑے ڈیم کو اگر ہم نے اپنے وسائل سے تعمیر کر لیا تو دنیا میں ہمارا وقار بڑھ جائے گا۔