کہتے ہیں کہ یہ کلجگ ہے…عصر عصر پذیر ہے…یہ عہد بے چہرہ ہے… یہ قحط الرجال کا دور ہے۔ شمع بکف پگ پگ پروانہ وار گھومیں تو بے چہرہ دو پایوں کے اس تاریک جنگل میں کہیں ایک آدھ روشن چہرہ انسان سے ملاقات ہوتی ہے۔ بیگم کلثوم نواز ہم میں نہ رہیں، نہایت نفیس شخصیت کی مالکہ تھیں، کبھی کسی کی کردار کشی نہیں کی، کبھی کسی کے خلاف ذاتیات پر نہیں اُتریں، وہ ایک جامع الصفات شخصیت تھیں، وہ ایک ایسی مرقع تھیں کہ چشم ناظر کو ورق ورق حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ حیات مستعار کے مختصر سے دور میں انہوں نے قدم قدم، نگر نگر اور ورق ورق دوام کے کئی نقوش ثبت کئے۔ وہ جمہوریت کے لیے کوشاں رہیں، وہ متنازعہ تو نہیں بنیں مگر مخالفین کے سامنے سیاست کے اکھاڑے میں زیر بھی نہیں ہوئیں۔ ان کے لیے اب یوں محسوس ہوتا ہے:
گلزار کے سایوں میں وہی حشر بپا ہے
پھولوں سے ابھی تک تیری خوشبو نہیں گئی
اصول پسند اور نظریاتی لیگیوں کو یہ بات خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ لگے، احوال و ظروف نے تین باتیں ثابت کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کلثوم نواز کا ’’ہوم ورک‘‘ مخالفین سے زیادہ ہوا کرتا تھا، دوسرے یہ کہ وہ مروجہ سیاست کے طور طریقے اپنانے کی صلاحیت سے یکسر محروم رہیں، تیسرے یہ کہ انہوں نے بلاوجہ سیاست میں عمل دخل سے گریز کیا۔اُن کی وفات کے موقع پر جہاںمسلم لیگی ورکرز اور کارکن غم کی تصویر بنے دکھائی دیئے،وہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی دکھ کی اس گھڑی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے نظر آئے۔تین بار پاکستان کی خاتونِ اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز 2 جولائی 1950ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں، انہوں نے پاکستان کے پہلے مسلمان گریجویٹ ڈاکٹر حفیظ اللہ کے آنگن میں آنکھ کھولی۔ کلثوم ریحانہ بٹ مشہورِ زمانہ رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ کلثوم نواز نے ابتدائی تعلیم لاہور کے مقامی سکول سے حاصل کی۔ 1970ء میں اسلامیہ کالج اور 1972ء میں ایف سی کالج سے ڈگری حاصل کی جبکہ بعد ازاں جامعہ پنجاب سے ماسٹرز ڈگری کیلئے اُنہوں نے اردو ادب کا انتخاب کیا۔ کلثوم نواز کی 1971ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف شادی ہوئی۔ان کے چار بچے ہیں۔2017ء میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد کلثوم نواز نے این اے 120 سے ضمنی الیکشن لڑا اور قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں لیکن صحت کی خرابی کے باعث کوئی فعال کردار ادا نہ کرسکیں، اسی الیکشن کیلئے نامزدگی کے فورا بعد انہیں لندن منتقل کیا گیا۔ جہاں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ رواں برس جون میںبیگم کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہوتی چلی گئی،جس کے بعدانہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا، ہارلے ہسپتال لندن میں گزشتہ کافی عرصہ سے ان کا کینسر کا علاج کیا جا رہا تھا لیکن ان کی حالت سنبھل نہیں سکی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔
سیاسی مبصرین بیگم کلثوم نواز کو ایک نفیس،بہادر اور دبنگ خاتون قرار دیتے ہیں کہ جس طرح اُنہوں نے مسلم لیگ پر آنے والی مصیبت اور مشکل کا جرأت اور حوصلے سے سیاسی محاذ پر حالات کا مقابلہ کیا اُسی طرح وہ کینسر جیسے موذی مرض سے نبردآزما رہیں۔ انہوں نے اس دور میں نواز لیگ کی قیادت کی ،جب 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور نواز شریف کی وزارت عظمیٰ ختم کرکے انہیں جیل بھجوا دیا۔ اس دور میں بیگم کلثوم کی گاڑی کو کرین سے ہوا میں معلق کرنے والی تصویر جب قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی تو یہ تصویر بیگم کلثوم کی سیاسی جدوجہد و احتجاج کی علامت کے طور پر مشہور ہوئی۔ یہ اُن کے لیے انتہائی سخت دور تھا لیکن وہ اپنی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے آواز بلند کرتی رہیں۔ انہوں نے سخت پابندیوں میں پورے ملک کے دورے کیے ، مذکورہ تصویر اسی جدوجہد کے دوران اُتاری گئی جب وہ گھر سے نکلیں تو انہیں روکنے کیلئے ان کی گاڑی کو اُٹھا دیا گیا لیکن بیگم کلثوم کئی گھنٹے اسی حالت میں گاڑی کے اندر رہیں اور باہر آنے سے انکار کر دیا۔سیاسی پنڈت مانتے ہیں کہ انہوں نے پرویزمشرف آمریت کا مقابلہ بہادری سے کرکے ثابت کر دیاکہ وہ مشہور زمانہ گاما پہلوان کی اولاد ہیں۔ یقینا بیگم کلثوم نواز شریف خاندان ایک فورس کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اسی لئے سابق وزیراعظم ان کی شوہر نواز شریف بھی ان کی بات توجہ سے سنتے تھے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد گزشتہ سال ملکی سیاست میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ شاید اب بیگم کلثوم نواز کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سونپ دی جائے گی ، ممکن ہے ایسا ہو بھی جاتا لیکن انہی دنوں جب وہ چیک اپ کیلئے لندن گئیںتو بدقسمتی سے انہیں گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی اور ڈاکٹروں نے فوری علاج شروع کر دیا لیکن وہ صحت یاب ہو کر واپس اپنے گھر آنے کے بجائے آخری آرام گاہ پہنچ گئیں۔ نواز شریف کی عدالت سے نااہلی کے بعد لاہور کے حلقہ 120 کی نشست خالی ہوئی تو سیاسی پنڈتوں کا عام خیال یہ تھا کہ یہ نشست کیونکہ گزشتہ تیس سال سے مسلم لیگ (ن) کی ہے چنانچہ یہاں سے اُمیداوار کوئی بھی ہو فتح مسلم لیگ (ن) کی ہی ہوگی۔ لیکن جب الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا تو یہ کہا جانے لگا کہ مسلم لیگ کی اُمیدوار اگر کلثوم نواز نہ ہوتیں تو شاید مسلم لیگ ن کمے لیے سیٹ بچانا بہت مشکل ہوجاتا۔ یا پھر عین ممکن تھا کہ مسلم لیگ کا اگر کوئی دوسرا امیدوار ہوتا تو وہ ہار جاتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بیگم کلثوم اپنے علاج کیلئے لندن نہ ہوتیں اور مریم نواز کے بجائے اس حلقہ میں اپنی مہم خود چلاتیںتو ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) اس سے بہتر انتخابی نتائج حاصل کرسکتی تھی۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کلثوم نواز صاحبہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے فلاسفی میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے، یہ اعزاز بھی پاکستان کی سیاست میں انہیں ہی حاصل ہے کہ مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ میں وہ پہلی خاتون ہیں جو 1999ء سے 2002ء تک پارٹی کی صدارت کے عہدے پر رہیں۔ اس کے علاوہ وہ تین دفعہ 1990ء سے 1993ء ،1997ء سے 1999ء اور پھر 2013ء سے 2017ء تک پاکستان کی خاتون اول بھی رہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر ہر طرف سے تعزیتی پیغامات جاری کیے جارہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے سابق خاتون اول کلثوم نواز کی وفات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین کو قانون کے مطابق تمام سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن لندن کو مرحومہ کے لواحقین کو تمام سہولیات دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔صدر پاکستان ڈاکٹرعارف علوی نے بھی اظہار افسوس کرتے ہوئے مرحومہ کی بلندی درجات کے لیے دعا کی ہے۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بیگم کلثوم نواز کے انتقال پرافسوس کا اظہار کیا ہے۔ملک کی تمام اہم شخصیات اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ میرا اس موقع پر مسلم لیگ ن کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ کلثوم نواز جیسی سیاست پر یقین رکھیں، انہیں سیاست میں آئیڈیل شخصیت کے طور پر لیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ مریم نواز جنہوں نے اُن کے زیر سایہ زندگی گزاری وہ بھی کلثوم نواز کے نقش قدم پر چل کر تحمل کی سیاست کریں۔ الزام تراشی کی سیاست پر کبھی کلثوم نواز نے یقین نہیں رکھا تھا۔ انہیں جب پاکستان بدر کیا گیا تب بھی چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ ملک چھوڑ کر گئیں۔ لہٰذا مریم نواز اور پورے خاندان کے لیے دعا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے غم کو بھلا سکیں۔ یقینا یہ اُن کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کلثوم نواز کی مغفرت کریں اور اُن کے درجات کو بلند فرمائے (آمین)
٭٭٭٭٭