اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ غیر متوازی اورسیاسی انجیئرڈ احتساب کا بڑھتا تاثر ایک خطرناک سوچ ہے۔ احتساب کے عمل کے غیر متوازی ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کیلئے ہنگا می طور پر اقدمات اٹھا نے کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ دوسری جانب کونسل اپنی کاروائی میں آزاد اور بااختیار ہے۔ از خود نوٹس کے اختیار کو آئیندہ فل کورٹ میٹنگ میں ہمیشہ کیلئے حل کر لیا جائے گا۔ سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو مشکل ترین کام قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کرے۔ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی تاہم صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی دوسری جانب کونسل اپنی کاروائی میں آزاد اور بااختیار ہے۔ گزشتہ عدالتی سال سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التواء پرائیویٹ درخواستوں کی تعداد 56 تھی۔ گزشتہ سال کونسل میں 102 شکایات کا اندراج ہوا، گزشتہ عدالتی سال میں کونسل 149 شکایات نمٹائی گئیں۔ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 شکایات زیر التواء ہیں۔ صدر مملکت کی جانب سے دائر دو ریفرنس شامل ہیں۔ صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر کونسل اپنی کاروائی کر رہی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور چیرمین اپنے حلف پر قائم ہیں۔ کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤکے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی۔ قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے سوا کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے۔ اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں،کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ بد اعتمادی سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔ اختلاف کو برداشت نہ کرنے سے اختیاری نظام جنم لیتا ہے۔ میں نے تقاضا کیا تھا کہ انتظامیہ اور قانون ساز عدالتی نظام کی تنظیم نو کے لیے نیا تین تہی نظام متعارف کرائیں بدقسمتی سے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ ادارہ جاتی مذاکرات کی تجویز پر بھی غور نہیں کیا گیا۔ بخوبی آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹوزم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے۔ سوسائٹی کا وہ طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹوزم پر تنقید کرتا تھاہم یہ سمجھتے ہیں کہ سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ ہے اور کم نقصان دہ ہے۔ معاشرے کا وہ طبقہ چند لوگوں کے مطالبے پر سو موٹو لینے کو سراہتا ہے۔ ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دائر کریں جسے سن کر فیصلہ ہوگا، اپنی تقریر میں کہہ چکا ہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا جوکسی کے مطالبے پر لیا گیا وہ سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا جب ضروری ہوا یہ عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔ جوڈیشل ایکٹوزم کی بجائے سپریم کورٹ عملی فعل جوڈیشلیزم کو فروغ دے رہی ہے، اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 1.81 ملین تھے اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق زیر التواء مقدمات کی تعداد کم ہوکر 1.78 ملین ہوگئی ہے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ زیر التوا مقدمات میں کمی ہو ئی ہے باوجود اس کے کہ 36 لاکھ کے قریب نئے مقدمات کا اندراج ہوا گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 مقدمات کا اندراج ہواگزشتہ سال عدالت عظمیٰ نے 57 ہزار 684 مقدمات سے ڈیل کیا دنیا بھر کی سپریم کورٹ میں پہلی بار سپریم کورٹ پاکستان نے ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا، ای کورٹ سسٹم کے ذریعے سپریم کورٹ پرنسپل سیٹ اور تمام رجسٹریاں ویڈیو لنک کے ذریعے منسلک ہوئیں۔ امریکہ میں سول ججز کی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس دنیا کا مستقبل ہے۔ اٹارنی جنرل نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 367 اور 370 میں ترامیم غیر قانونی اقدامات ہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہا ہے، بدقسمتی سے بھارتی سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ حکومت پاکستان نے اس معاملے کو قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوام عالم کے سامنے اٹھایا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد موجودہ چیف جسٹس نے بھی فوری انصاف پر توجہ مرکوز رکھی۔ مقدمات کو فوری نمٹانے کے لیے ماڈل کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا۔10 ستمبر 2018 تک 37933 کیس زیر التواء ہیں۔16131 مقدمات کو اس سال نمٹایا گیاجبکہ 2 ستمبر 2019 تک 41553 میں سے 19791 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا، 18 جنوری تک 2019 تک 8 ہزار 68 فوجداری مقدمات زیر التواء تھے اس عرصے میں 3 ہزار 70 نئے مقدمات دائر کیے گئی عالمی عدالت انصاف نے بھی پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کے مقدمات کے فیصلے ہیں۔ اعلی عدلیہ نے انسانی حقوق کے مقدمات کو ترجیح دی ہے ملک میں مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے عدالت عظمی میں ای کورٹ سسٹم متعارف کرایا گیا۔ ملک کے قانون نظام میں قدم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انصاف کے شعبے میں دیگر اہم اصلاحات بھی کی گئیں، قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ کرپشن نے قیام پاکستان سے ہی عدالتی نظام کو جکڑ رکھا ہے ماتحت عدلیہ، پولیس، وکلا اور پراسیکیوٹرز کی سطح پر جدید نظام کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسا نظام قائم کیا گیا جس میں کرپشن کے لیے کوئی جگہ نہ ہوسید امجد شاہ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا ماتحت عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کبھی تسلی بخش نہیں رہی اس لئے ماتحت عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے۔ لوگوں کو مقدمات کے فیصلوں کیلئے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ واٹس آپ پر ججز کے تبادلے کے احکامات سے اجتناب کیا جائے، ماڈل کورٹس میں مقدمات کی کاروائی کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے آئین کی بالادستی کیلئے ہر ادارہ اپنے حدود میں راہ کر کام کرے حساس ادارے ارباب اختیار کی نجی زندگیوں کی جاسوسی کر کے انہیں بلیک میل کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم کے مقدمات کی جلد شنوائی کی گئی جس امر نے دو مرتبہ آئین توڑا، اس کا مقدمہ سالوں سے فیصلہ طلب ہے ازخود نوٹس میں بھی اپیل کا حق دیا جائے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کاروائی چیلنج ہوچکی ہے۔ جوڈیشل کونسل کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے لگایا جائے پولیس کی حراست میں لوگوں کی اموات کے واقعات تشویشناک ہیں۔ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ پولیس افسر آج بھی اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن امان اللہ کنرانی نے کہا کہ تمام اختلافات کمزوریوں کے باوجود وطن کے دفاع کے لیے ہم سب ایک ہیں۔ فوج اور سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی وجہ سے ہم سکون کی نیند سوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تنقید کرنا آسان عمل کرنا مشکل ہے، انسان دوسروں کے لیے بہترین منصف اور اپنے لیے بہترین وکیل ہوتا ہے۔ عدالتی مقدمات کے حتمی فیصلے تک میڈیا کو مواد نشر کرنے سے روکا جائے، کسی کو معزز جج کی کردار کشی کا استحقاق نہیں ہونا چاہیے۔ میڈیا عوام کی مشکلات سامنے لانے کے بجائے اشرافیہ کے مقدمات کو سامنے لاتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 209 کے تحت جن ججز کے خلاف شکایات ہیں ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ آئین کی حکمرانی اپنی اولین قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ تقریب میں جسٹس عمر عطا بندیال‘ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم کے علاوہ تمام ججز موجود تھے۔ تینوں ججز چھٹی پر ہونے کے باعث شریک نہیں ہو سکے۔
سیاسی انجینئرڈ احتساب کا تاثر خطرناک سوچ‘ بداعتمادی سے پیدا بے چینی جمہوری نظام کیلئے خطرہ: چیف جسٹس
Sep 12, 2019