صدرڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ حکومت اور پوری پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے اور وہ بھارت سے آزادی کے ان کے ہدف کے حصول تک ان کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گی۔انہوں نے یہ بات جمعرات کی سہ پہر اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تحت قومی اسمبلی کے دوسرے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔صدر نے کہا کہ گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات پر حکومت اور لوگوں سے بھرپور ردعمل ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے ناصرف عالمی قوانین بلکہ شملہ معاہدے کی روح کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔صدر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارت کے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات کی متفقہ طور پر مذمت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے جواب میں سفارتی تعلقات کم کرنے، دوطرفہ تعلقات پر نظرثانی، امداد روکنے اور تمام عالمی فورموں پر مسئلہ کو اجاگر کرنے سمیت کئی اقدامات کئے ہیں۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ یہ پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ اس مسئلے پر بھارت کی جانب سے روکنے کی کوشش کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غور کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک حل طلب مسئلہ ہے۔صدر نے کہا کہ اگر کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ علاقائی امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم سمیت تمام بین الاقوامی فورمز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیرقانونی اقدامات کو شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ تمام پابندیاں ختم کی جائیں اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے اتفاق رائے سے ایک بیان میں اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلئے کہا ہے۔ ہم تمام دوست ملکوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر پر ہمارے نقطہ نظر کی حمایت کی۔ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کے کامیاب دورہ امریکہ کو سراہا جس کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر دنیا میں سب سے بڑا فوجی علاقہ بن چکا ہے۔ بھارت اپنی ظالمانہ حرکات سے کشمیریوں کی آزادی کیلئے آواز کو دبا نہیں سکتا۔ آر ایس ایس کے پیروکار اور بھارتی حکومت کشمیریوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو نازیوں نے 1930ء میں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ 80 ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی خدشات کے باعث ہے۔ غیرقانونی حراست، خواتین سے زیادتی اور پیلٹ گنز کا بے گناہ لوگوں کیخلاف ہتھیاروں کے طور پر استعمال سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کو روندھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بوسنیا میں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعہ کو دہرانا چاہتی ہے۔صدر نے کہا کہ پاکستان بھارت پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ ایسی کوششیں علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سلامتی سنگین خطرے کا باعث ہوںگی۔صدر نے کہا کہ مسجد کا اسلامی معاشرے میں خصوصی مقام ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اور منبر سماجی تشکیل نو کے لئے بہترین مقام ہے۔ انہوں نے علماء پر زور دیا کہ وہ آگے آئیں اور معاشرے سے برائی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔صدر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ترقی دینے کا عزم ظاہر کیا اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایک کمزور معیشت ایک بڑے تجارتی خسارے اور ادائیگیوں کے توازن کے مسائل ورثے میں ملے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے عمل کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔زراعت کے بارے میں صدر نے کہا کہ حکومت نے اہم فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے زرعی ہنگامی پروگرام شروع کیا ہے۔ پروگرام میں پانی ذخیرہ کرنے، افزائش حیوانات، مرغیوں کی افزائش اور منڈیوں تک آسانی سے رسائی بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کسی بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف تک رسائی، صحت، تعلیم اور روزگار کی فراہمی اس ذمہ داری کے اہم پہلو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی سہولت کے لئے متعدد قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔صدر نے کیسوں کو فوری طور پر نمٹانے اور جدید عدالتوں کے قیام کے لئے عدلیہ کے کردار کو سراہا۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے شروع کردہ احساس پروگرام سماجی تحفظ میں سب سے بڑا پروگرام ثابت ہو گا۔ یہ پروگرام معاشرے کے مختلف طبقوں کو مدد دینے میں کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے حکومت پرزور دیا کہ وہ ان پروگراموں میں شفافیت یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں خواتین کو مساوی شراکت داری دی جائے گی تاکہ انہیں بڑے پیمانے پر بااختیار بنایا جا سکے۔