انہی دنوں ٹی وی آن کرنے پر نیوزچینل پر دو اکٹھی چلنے والی خبروں نے کسی حد تک دل کو مطمئن کیا، نمبر ایک غیر معیاری یا دو سرے لفظوں میں غیر اخلاقی سائٹس پر سختی سے پابندی پر تیزی سے عمل جاری ہے اور مخصوص ٹیمیں دن رات اس پر کام کر رہی ہیں۔ غیر مہذب اور غیر اخلاقی مزاج رکھنے والوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ منفی رجحانات کی حامل ہوتی ہیں اب منفی رجحانات میں کون کون سے شعبہ جات شامل ہیںاس پر الگ سے ایک کالم لکھا جاسکتا ہے خیر کچھ تو عمل درآمد شروع ہوا، غیر اخلاقی مواد کو انٹرنیٹ پر سرچ اور واچ کرنے والے ممالک میں سے پاکستان اولین ممالک کی فہرست میں شامل ہے، افسوس کا مقام ہے کہ ہم اولین نمبروں میں ہمیشہ مائنس پر ہوتے ہیں ہمارے اندر کی پوزیٹو اْبھر کر کم ہی سامنے کیوں آتی ہے، دوسری خبر بھکاری طبقے کے خلاف تھی جن میں جرائم پیشہ افراد کو حراست میں لئے جانے کے بارے میں بتایا جارہا تھا، میں بارہا ان بھیک منگوں کے خلاف لکھ چکی ہوں، یہ ہم ہی ہیں جو ان کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر اپنی خون پسینے کی کمائی رکھ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اگر آج ہم ان بھکاریوں کو مفت میں دینا بند کردیں تو اس نیٹ ورک کو بریک کیا جاسکتا ہے شاید یہ تنہا حکومت کا کام ہے بھی نہیں کیوں کہ اس نیٹ ورک کی حوصلہ افزائی کرکے اس کو آج اتنا طاقتور بنا دیتے ہیں ہمارا بھی قصور ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو پیشہ وارانہ اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ضرورت سے زیادہ عادت اور ان کا پروفیشنلزم ان کوسڑکوں پر لاتا ہے ورنہ ایسے لاکھوں ضرورت مند ہوں گے جن کے گھر ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہوگی لیکن وہ اپنی زبان کھولنے اور اپنے ہاتھ کو پھیلانے سے زیادہ عزت سے بھوکے مرجانا پسند کرتے ہوں گے، بہت سے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں لیکن ہماری لاپرواہی شاید ہمیں پورا منظر دکھا نہیں پاتی خیر ان دونوں مسائل پر حکمت ِ عملی پر فورا عملدرآمد کی اشد ضرورت بھی تھی۔ ان بھکاریوں کے روپ میں اور کتنے مسائل جنم لے رہے ہیں اور کتنے جرائم کی افزائش ہورہی ہے ہمیں علم بھی نہیں ہوگا۔ آج کل ہی ایک اورخبر ٹی وی پر چل رہی تھی جس میں ایک نوجوان کو دوسرے نوجوان نے ایک خواجہ سرا کی مدد سے قتل کرکے پھینک دیا، خواجہ سرا طبقہ بھی مظلوم ضرورہے لیکن جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ اگر انسان عزت اور حلال کی کمائی کھانا چاہے تو اسکے سامنے بہت سے دروازے کھلے ہوئے ہیں یہ لوگ محنت مزدوری کرسکتے ہیں ، چھوٹے موٹے کام کرسکتے ہیں، دوسری طرف پڑھا لکھا طبقہ ہے جو بیروزگر نظر آتا ہے۔ نوکریاں ملنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوچکا ہے، ایسے میں انٹرنیٹ نے بہت ساری آسانیاں پیدا کردی ہیں، دْنیا بھر میں انٹرنیٹ پر بزنس کرکے لوگ لاکھوں ڈالرز بھی کما رہے ہیں آپکے پاسSkill ہونی چاہئے، بھارت میں یہ کام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، وہاں فری لانسرز کے کام کاانداز بھی بڑا دلچسپ ہے، وہ لوگ دو دو چار چار کے گروپ بناتے ہیں کچھ کپڑے اور لیپ ٹاپ لے کر کسی پہاڑی تفریحی مقام پر نکل جاتے ہیں وہاں دو ہفتے کیلئے کمرہ کرائے پر لیتے ہیں کام سے بھرپور انصاف کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تفریحی مقامات کی سیر بھی کرتے ہیں، اسی طرح اکٹھے رہ کر وہ ایک دوسرے سے اپنا نالج بھی شیئر کرتے ہیں، یہ چوبیس گھنٹے کرنیوالا کام ہے۔ Skill آپ کے پاس موجود ہے ایک عدد کمپیوٹر ہے اور گھر بیٹھے آپ جب چاہیں اْٹھ کر اپنا کام کرسکتے ہیں۔ اچانک آنے والی آفت کرونا نے اس کام کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔دْنیا بھر میں فری لانسنگ کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کی ایک وجہ لائف سٹائل کی بدلتی ہوئی تبدیلی بھی ہے۔ امریکہ اور بھارت اس کام میں بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں وہاں فری لانسرز کیلئے فائیو سٹار ہوٹلز کی لابی جیسا ماحول، تیز ترین انٹرنیٹ اور پرائیویسی میسر ہوتی ہے۔ اگر آپ کے گھر میں جگہ نہیں یا بجلی کی پرابلم آرہی ہے تو اپنا لیپ ٹاپ اٹھاتے ہیں اور آرام سے ایسی جگہ پر جاکر اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ فری لانسنگ کی تیزی سے پھیلنے کی وجہ اس کا تقریبا زیرو انویسٹمنٹ ہونا بھی ہے، ایک کمپیوٹر اور ایک اچھا انٹرنیٹ اس کا م کو شروع کرنے کیلئے کافی ہے۔ پاکستان میں اس کام کی طرف لوگوں کا تیزی سیرجحان بڑھ رہا ہے، آپ کوئی Skill تو حاصل کیجئے، نیت تو باندھیے، راستے خود بخود آپ کیلئے بنتے چلتے جائینگے۔ فرصت تو برائیوں کی جڑہے یہ کام خواتین اور معذور افراد کیلئے بھی پرکشش ہے۔