متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو عالمی سیاست کوحیرت و استعجاب نے لپیٹ میں لے لیالیکن بڑی طاقتوں اورمشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کیلئے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیںتھی۔ مسلم دُنیا میں ترکی اور شاہ کے ایران نے شروع میں ہی اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا ۔ اس سے بھی بہت پہلے ، جب 1948ء میں جنرل اسمبلی نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور آدھے حصے پر اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو شاہ مراکش (موجودہ شاہ کے والد) اور تونس کے صدر حبیب بور قیبہ نے فلسطینیوں کو مشورہ دیا۔کہ وہ قسمت کے لکھے پر شاکر اور بڑی طاقتوں برطانیہ ، فرانس اور سوویٹ یونین کی سازشوں پر صبر کر کے فی الحال ملے ہوئے پرقناعت کریںاور اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔شاہ ایران امریکہ کی کٹھ پتلی تھے تو ترکی سیکولر۔ اگر 1948ء میں ایران میں اسلامی انقلاب اور ترکی میں رجب طیب اردوان ہوتے تو اسرائیل کو کبھی تسلیم نہ کرتے۔ کیونکہ اسکی حیثیت ایک قبضہ مافیاجیسی تھی۔
مسئلہ فلسطین نے فلسطینیوں کو کم فائدہ پہنچایا جبکہ طالع آزماؤں کی بن آئی۔سب سے پہلے مصر کے کرنل جمال عبدالناصر نے اسرائیل کی گیم کھیلتے ہوئے شاہ فاروق کا تختہ اُلٹا پھر شام میں ایک علوی فوجی افسر حافظ الاسد نے شام کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا ۔یکم ستمبر 1969ء کو کرنل (کیپٹن) معمر قذافی نے شاہ ادریس السنوسی کو چلتا کیا، سوڈان سمیت کچھ اور بھی ملک اس راہ پر چلے ان سب کا جواز یہی تھا کہ حکمران سامرا جی ایجنٹ ہیں جس کی وجہ سے صہیونی، عربوں کی پیٹھ میں اسرائیل نامی چھُراگھونپنے میں کامیاب ہو گئے ۔ستم ظریفی دیکھئے ۔ شاہ مراکش اور صدر بو رقیبہ کو غدار اور سامراجیوں کاایجنٹ قرار دینے والوں نے اسرائیل کیخلاف جتنی جنگیں لڑیں بُری طرح ہاریںاور بقیہ آدھے فلسطین پر بھی یہودیوں کا قبضہ ہوگیالاکھوں فلسطینی جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔67ء کی جنگ میں اسرائیل نے معروف امریکی صحافی جارج ایف ویل کے ذریعے شاہ حسین والی ء اُردن کو پیغام بھیجا کہ وہ اس جنگ سے علیحدہ رہیںتواُنہیں نہیں چھیڑا جائے گالیکن شاہ حسین اُردن میں مقیم فلسطینیوں کے دباؤ میں آکر جنگ میں کود پڑے نتیجتاً اسرائیل نے مغربی کنارہ اور بیت المقدس کا ایک حصّہ چھین لیا۔
فلسطینی بڑی طاقتوں کے سرمایہ دارانہ اور مسلم دُشمن رجحانات سمجھنے سے قاصر رہے۔چنانچہ فلسطینی قیادت کو یورپ میںآباد یہودیوںاور کھلاڑیوں کی ٹیموں اور یہودی بستیوں پر حملے بہت مہنگے پڑے۔ اُردن نے اسرائیل کے ساتھ جنگوں کے دوران بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے ہاں جگہ دی حالانکہ اُردن نیم صحرائی و کوہستانی علاقہ ہے یعنی صنعتی ہے اور نہ زرعی۔ کچھ عرصہ بعد اُردن میں مقیم مہاجر فلسطینیوں نے یاسرعرفات کے اشارے پر شاہ حسین سے باقاعدہ محاذ آرائی شروع کردی اور شاہ کو اسرائیل پر حملہ کرنے پر مجبور کیا۔شاہ اگر اُس وقت کوئی ایسی مہم جوئی کر بیٹھتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ آج اُردن پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہوتا۔شاہ کے انکا ر پر فلسطینیوں نے شورش برپاکر دی جسے فرو کرنے کیلئے شاہ حسین نے پاکستان سے مدد کی اپیل کی ۔ پاکستان نے جنرل (تب بریگیڈیر) ضیاء الحق کو اُردن کواس بحران سے نکالنے کا فریضہ سونپا (بریگیڈیر) ضیاء الحق نے کمال فوجی مہارت سے اس شورش کو نہ صرف دبایا بلکہ اُردن کو اسرائیل کے چُنگل میں جانے سے بچایا۔ دوسری طرف نام نہاد ترقی پسند عرب حکمرانوں قذافی ،کرنل ناصر اور صدر حافظ ا لاسد نے بے خانماں فلسطینیوں سے جو سلوک کیااُکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اتنا بے گانوں نے ذلیل و خوار نہیں کیا جتنا اُنہوں نے ۔اگر قذافی مصر اور صدر اسد نے بڑھکیں لگانے سے گریز اور ہوش وخرد سے کام لیا ہوتااور اشتراکی ملکوں پر زیادہ اعتماد نہ کیا ہوتاتو آج فلسطینی دُنیا کی سب سے مظلوم قوم ہونے کی بجائے قبلہء اوّل بیت المقدس کو دارالحکومت والے ملک کے مالک ہوتے۔مصر ،اُردن ، لبنان اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیںاور کئی دوسرے بھی اس لائن میں لگ گئے ہیں۔ شمالی افریقہ کے عرب مسلمان ملکوں میں بھی اسرائیل کیخلاف کچھ زیادہ مخاصمت نہیں پائی جاتی بلکہ بڑی حد تک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔عرب لیگ کے ارکان کی تعداد 21ہے اور مسلم ممالک کی 56 ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک ایک کر کے سب ایک ہی قطار میں آجائیں گے۔
دراصل عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف مائل نہ ہوتے اگر اُنہیں ایران کا خوف نہ ہوتا۔ایران عجم کہلاتا ہے اُسکی زبان فارسی ہے ۔ اُس نے یمن کے عرب حوثیوں اور شام کے علوی بشارالاسد کی فوجی امداد کر کے عرب ملکوں کو مزید خوف زدہ کر دیا ہے۔ عرب ملکوں میں یہ عام تصّور پایا جاتا ہے کہ ایران فلسطینیوں کی حمایت کے نام پر اپنے مسلک کو عرب ملکوں کو برآمد کرنے اور خصوصاً مقاماتِ مقدسہ پر غلبے کا خواہاں ہے ۔عرب ملک سمجھتے ہیں کہ اگر ایران ایٹمی ملک بن گیا تو کوئی بھی مسلمان ملک اُنہیں ایران سے بچانے والی فصیل نہیں بنے گا۔وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اُکی سلامتی و آزادی اور خودمختا ری کیخلاف جارحیت کے راہ صرف اور صرف اسرائیل ہی روک سکے گا۔ عرب ملک اگر ایران کے خوف سے اسرائیل کی طرف جُھک رہے ہیںتو یہ امرمسلم ممالک اور عرب وعجم کلئے لمحہ فکریہ اور تشویش انگیز ہے۔کیا ہی اچھا ہو تا کہ ایران عربو ں کے معاملات میں مداخلت نہ کرتا۔ مسلکی اختلافات کو نہ اُچھا لا جاتا ۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود اہل ِ سنّت اور اہل تشیع دونوں کیلئے خطرے کا باعث ہے ۔ عرب وعجم کو ایک دوسرے کیخلاف لڑ کر اپنے وسائل برباد کرنے کی بجائے یکجان دوقالب ہوکر اس خطرے کا مقابلہ کرنا چاہیے یہ تو ہماری کوتاہ اندیشی ہے کہ ہم شیعہ و سُنی کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہندوؤں کی طرح صہیونیوں کے نزدیک بھی ہم صرف اور صرف مسلمان ہیں۔
عرب و عجم اور اسرائیل
Sep 12, 2020