معزز قارئین! سالہا سال سے جرمنی کے شہر "Frankfurt" کے باسی ’’فرزندِ پاکستان‘‘ نامور "Banker" اور ماہر اقتصادیات 72 سالہ ’’ نظریۂ پاکستانی‘‘ سیّد محمد طیب بخاری 6 ستمبر کو خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ مرحوم ، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ’’ ایم اے او ‘‘ کالج کے پرنسپل پروفیسر یوسف بخاری کے بڑے بھائی اور ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کے بہنوئی تھے۔ سیّد شاہد رشید کی ہمشیرہ سیّدہ غزالہ سے سیّد محمد طیب بخاری کی شادی 29 اگست 1993ء کو لاہور میں ہُوئی ۔ مَیں اُس شادی میں شریک تھا۔
مرحوم سیّد محمد طیب بخاری کی بیوہ غزالہ بخاری ، اُن کے بیٹے شہریار بخاری اور بیٹی شہریار بانو اور دوسرے لواحقین کو جو دُکھ ہُوا ہوگا اُس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے ۔ مجھے، آج 29 اگست 1993ء کو غزالہ سیّد کی سیّد محمد طیب بخاری سے شادی کی شام یاد آ رہی ہے ۔تقریب ِ شادی میں (اب مرحومین)’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی، فرزند ِ اقبالؒ ،جسٹس (ر) جاوید اقبال ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے وائس چیئرمین ،پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد ، چیئرمین ’’تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کرنل (ر) جمشید احمد ترین اور ماشاء اللہ حیات ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف، سابق وفاقی وزیر نعیم حسین چٹھہ اور دوسرے اکابرین رونق افروز تھے ۔
مَیں نے جنابِ مجید نظامی سے پوچھا تھاکہ "Sir!" آپ بھی تو جرمنی گئے تھے ، وہاں آپ نے کون سی خاص چیز دیکھی ؟‘‘ جنابِ مجید نظامی نے کہا کہ ’’ خاص چیز "Munich University" تھی جہاں سے علاّمہ اقبالؒ نے ’’ڈاکٹر آف فلاسفی ‘‘ کی ڈگری حاصل کی تھی‘‘۔ مَیں نے نظامی صاحب کو بتایا کہ "Sir !"مَیں بھی اکتوبر 1981ء میں جرمنی گیا تھا اور مَیں نے بھی ’’ میونخ یونیورسٹی‘‘ کی زیارت کی تھی‘‘۔ جنابِ نظامی نے مسکرا کر کہا کہ ’’ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اِس زیارت کا ثواب ملا ہوگا؟‘‘
ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ ’’ علاّمہ اقبالؒ کو جرمن زبان پر عبور تھا لیکن اُنہوں نے انگریزی میں مقالہ، برطانوی اور ہندوستانی ’’ علمائے ما بعد اطبیعات ‘‘ کے لئے لکھا تھا‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے اپنے دورۂ جرمن کی رُوداد سُنائی تو، اہلِ محفل کو بہت اچھا لگا۔ میاں فاروق الطاف نے کہا کہ ’’مَیں کئی بار جرمنی کے "Pleasure Trips" پر گیا اور میرا بیٹا سلمان فاروق بھی ‘‘ ۔ نعیم حسین چٹھہ نے کہا کہ ’’ مَیں نے بھی دُنیا دیکھی ہے لیکن، اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا ہی مجھے "Pleasure Trip" لگتا ہے ‘‘۔ پھر سیّدہ غزالہ اور سیّد محمد طیب بخاری کی شادی کی دُعائیں دیتے ہُوئے شُرکاء اپنے اپنے گھروں کو رُخصت ہوگئے۔
شادی کے بعد سیّد محمد طیب بخاری جب کبھی پاکستان آتے تو سیّد شاہد رشید کی وساطت سے میری اُن سے ملاقات بھی ہو جاتی ۔ اپریل 2014ء میں جب سیّد شاہد رشید اُنہیں جنابِ مجید نظامی کے گھر بھی لے گئے تو مَیں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ بخاری صاحب بتا رہے تھے کہ ’’ محترم مجید نظامی صاحب! آپ کی کوششوں سے جرمنی میں ’’نظریۂ پاکستان ‘‘ اور ’’ پاکستانیت ‘‘ کو بہت فروغ مل رہا ہے !‘‘۔
’’ ایٹمی قوت پاکستان!‘‘
مَیں نے اپنے پنجابی جریدہ ’’ چانن‘‘ لاہور کے نومبر 2011ء کے شمارے میں جنابِ مجید نظامی کا پنجابی انٹرویو شائع کِیا تھا۔اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ پنجابی صوفی شاعراںدا کلام پڑھنا ضروری اے پر انگریزی زبان "Lingua Franca" (مختلف زباناں بولن والیاں انساناں دی مشترکہ بولی ) اے جے اسیں پنجابی زبان تِیکر ای رہندے تاں پاکستان ایٹمی طاقت کِیویں بن سکدا ؟‘‘ مَیں نے کہا کہ ’’جے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوری "Hendrina Henny"نال ویاہ کر کے جرمن زبان نہ سیکھدے تے فَیر اوہ ایٹم بمب کیوں بنائوندے؟‘‘
معزز قارئین! ستمبر 2012ء کی ایک محفل میں مَیں نے جنابِ مجید نظامی سے عرض کِیا کہ "Sir !" علاّمہ اقبالؒ کی فارسی شاعری الہامی تھی‘‘۔ آپؒ نے اپنی تصنیف ’’ پیام مشرق‘‘ میں اپنے مُرشد ( مولانا روم ؒ ) سے جنت میں جرمن شاعر، ڈرامہ نگار اور دانشور "Goetia" (گوئٹے) کی ملاقات کا تصّور کِیا اور کہا کہ ’’ یہ بلند مرتبت شاعر پیغمبر تو نہیں لیکن صاحب ِ کتاب ہے‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ کا فارسی شعر یوں ہے…؎
’’ شاعرے کو ،ہمچوآں ، عالی جناب!
نِیست پیغمبر ، ولے دار د کتاب !
…O…
یعنی۔ ’’ یہ جرمن شاعر ( گوئٹے) بلند مرتبت شخصیت کی مانند ہے، یہ پیغمبر تو نہیں لیکن، صاحب ِ کتاب ہے‘‘۔
’’ چیئرمین پیمرا ‘‘ پروفیسر محمد سلیم بیگ نے جولائی 2016ء میں حکومت ِ پاکستان کے (Principal Information Officer) کی حیثیت سے ایک اہم تقریب میں کہا تھا کہ ’’ علاّمہ اقبالؒ نے جرمن مؤرخوں ، فلسفیوں ، شاعروں اور معیشت دانوں کا گہرہ مطالعہ کِیا تھا اور اُن کی جھلک اُن کی فارسی شاعری میں خاص طور پر جھلکتی ہے!‘‘۔
’’مادرِ ملّت کی یاد !‘‘
’’ جرمن فرزند ِ پاکستان ‘‘ سیّد محمد طیب بخاری کے وِصال کی بات بہت دُور چلی گئی ۔ بخاری صاحب نے اپنے جون 2015ء کے دورہ ٔ پاکستان میں مجھے بتایا تھا کہ ’’ اُس وقت میری عمر18 سال تھی جب مَیں لاہور میں 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادرِ ملّتؒ کی انتخابی مہم میں بھرپور حصّہ لے رہا تھا کہ پولیس مجھے گرفتار کر کے لے گئی لیکن، مادرِ ملّتؒ کے ’’ طاقتور کارکنوں ‘‘نے پولیس سٹیشن جا کر مجھے رہا کروا لِیا تھا۔ معزز قارئین! مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ’’کون کون شخص؟ سیّد محمد طیب بخاری کی زندگی کے کس کس روشن پہلو کو یاد کرے گا ؟‘‘
حرفِ آخر ۔ 2013ء سے لندن میں اپنی "Law Company" کے مالک میرے بیٹے انتصار علی چوہان نے 1994ء میں جرمن زبان سیکھ لی تھی۔ پھر جب بھی مَیں برطانیہ گیا تو مَیں نے اُسے کئی بار اپنے جرمن دوستوں سے جرمن زبان میں گفتگو کرتے دیکھا اور سُنا تو اُس وقت مجھے علاّمہ اقبالؒ اور جنابِ مجید نظامی بہت یاد آئے ؟۔ شاعر نے کہا تھا …
’’ وہ جب یاد آئے ، بہت یاد آئے ! ‘‘
…O…