الیکشن کمیشن پر وفاقی وزراء کے سنگین الزامات‘ ادارہ جاتی ٹکرائو کا خدشہ

الیکٹرانک ووٹنگ کے معاملہ پر حکومت اور الیکشن کمیشن میں سخت تنائو اور کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور وفاقی وزراء نے الیکشن کمیشن پر چڑھائی کرتے ہوئے اسے اپوزیشن کا مائوتھ پیس قرار دے دیا۔ گزشتہ روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن ترمیمی بل 2021ء کی الیکٹرانک ووٹنگ سے متعلق شقوں کو کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا اور الیکشن کمیشن کے بجائے انتخابی فہرستیںنادرا سے بنوانے کی ترمیم بھی مسترد کر دی۔ میٹنگ میں وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن پر ہمیشہ دھاندلی کا الزام لگا ہے۔ انہوں نے خود بھی الیکشن کمیشن پر یہ الزام لگایا کہ اس نے پیسے پکڑ رکھے ہیں‘ یہ جہنم میں جائے‘ ایسے اداروں کو آگ لگا دینی چاہیے۔ سینیٹر تاج حیدر کی زیرصدارت منعقدہ سینٹ کمیٹی کے اس اجلاس میں مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابراعوان نے ای ووٹنگ اور ای وی ایم سے متعلق اٹھائے گئے الیکشن کمیشن کے 37 اعتراضات کا نقطہ اور جواب دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن قانون سے بالاتر نہیں ہے اور اسے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے۔ انکے بقول ای وی ایم مشین انتخابی دھاندلی روکے گی۔ اعظم سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن حکومت کا مذاق اڑا رہا ہے‘ اس نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں۔ اجلاس میں موجودہ الیکشن کمیشن کے حکام اعظم سواتی کے الزامات پر اجلاس سے واک آئوٹ کرگئے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اعظم سواتی کے رویے کو نامناسب قرار دیا اور ان سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس سے پیسے پکڑے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس میں سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمان کا یہ کام ہے کہ وہ آئین کے تحت بنے اداروں کی بے توقیری کرے۔
اجلاس سے واک آئوٹ کرنیوالے الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکرٹری ظفراقبال کے بقول وفاقی وزراء نے جمعرات کے روز ایوان صدر میں بھی دوران اجلاس بدتمیزی کی تھی اس لئے ایسے ماحول میں اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے۔ الیکشن کمیشن کا وفد اسی تناظر میں اجلاس چھوڑ کر پارلیمنٹ ہائوس سے روانہ ہو گیا جبکہ اعظم سواتی کے بیان پر حکومت اور اپوزیشن میں سخت لفظی جنگ ہوئی اور چیف الیکشن کمشنر بھی وزراء کے رویے پر سخت برہم ہوئے۔ 
پارلیمنٹ میں مختلف ایشوز پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین اختلافِ رائے پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ اس اختلافِ رائے کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ پارلیمنٹ ہی قانون سازی اور آئین و قانون کی شقوں میں ترمیم کی مجاز ہے۔ حکومت انتخابی اصلاحات کیلئے مروجہ قوانین یا آئین کی کسی شق میں ترمیم چاہتی ہے یا کوئی نیا قانون لانا چاہتی ہے تو مروجہ جمہوری اور آئینی طریقہ کار کے تحت پارلیمنٹ کے مجاز فورم پر ہی یہ معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ تاہم انتخابی دھاندلیوں کی روک تھام کے حوالے سے پہلے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے باہر الیکٹرانک ووٹنگ کا آئیڈیا پیش کرکے الیکٹرانک مشینیں درآمد کرنے کا بھی عندیہ دے دیا گیا جس پر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ حکومت نے سینٹ کے گزشتہ انتخابات بھی الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے کرانے کی الیکشن کمیشن کو تجویز پیش کی جو الیکشن کمیشن نے قابل عمل نہ ہونے کی بنیاد پر مسترد کر دی تاہم حکومت کی جانب سے سینٹ الیکشن کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم رائج کرنے کے معاملہ میں مزید پیش رفت کی جانے لگی جسے اپوزیشن نے انتخابی دھاندلی کی منصوبہ بندی سے تعبیر کیا تو حکومت آرڈیننس کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم رائج کرنے کا عندیہ دیتی نظر آئی۔ اس معاملہ پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا چنانچہ الیکشن کمیشن نے مجوزہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے محاسن و مضمرات کا مفصل جائزہ لے کر اس پر 36 مختلف اعتراضات اٹھائے اور اس سسٹم کو ناقابل عمل قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن کے بقول الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جلد بازی میں ووٹنگ تباہ کن ہوگی جبکہ مشین سے جلد نتائج کے حصول کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اسی طرح الیکٹرانک مشین کے ذریعہ فراڈ روکنا مشکل ہے چنانچہ عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اٹھ جائیگا۔ اپوزیشن کو اس حوالے سے بھی الیکٹرانک ووٹنگ پر تحفظات ہیں کہ حکومت زبردستی یہ سسٹم لاگو کرنا چاہتی ہے تو وہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کی پیشگی منصوبہ بندی کرچکی ہے۔ 
اب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری سمیت وفاقی وزراء کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ پر الیکشن کمیشن کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کی بنیاد پر اس پر کڑی تنقید کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور اس پر اپوزیشن کی آواز بننے کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے تو اس سے سیاسی کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی ٹکرائو کی ناگوار اور افسوسناک صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن بھی آئین کے تحت قائم ایک خودمختار ادارہ ہے جس کے چیئرمین اور ارکان کا انتخاب 18ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین باہمی معنی خیز مشاورت سے عمل میں آتا ہے۔ عام‘ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کرانا اور انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی کے امکانات کو روکنا الیکشن کمیشن کے فرائض منصبی میں شامل ہے جس کیلئے حکومت اور دوسرے ریاستی اداروں نے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہوتی ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ہی الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار ہو اور اسے مختلف سنگین الزامات کی زد میں لایا جائے تو الیکشن کمیشن کیلئے آزادی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ 
ہماری سیاست کا یہی المیہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت انتخابات میں حصہ لینے والا کوئی بھی فریق اپنی شکست خوشدلی سے تسلیم نہیں کرتا اور اپنی ناکامی کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا جاتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں بہترین ساکھ کے حامل چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی اس وقت کی اپوزیشن (پی ٹی آئی) کے دھاندلیوں کے سنگین الزامات پر زچ ہوئے اور اپنے منصب سے مستعفی ہوگئے جس کے بعد کئی شخصیات نے چیف الیکشن کمشنر کا منصب سنبھالنے سے معذرت کی اور بالآخر سردار رضا خان نے یہ منصب قبول کیا۔ انکے بعد موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا انتخاب بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے عمل میں آیا مگر وہ گزشتہ ضمنی انتخابات سے حالیہ سینٹ انتخابات تک بالخصوص حکومت کی جانب سے تنقید کی زد میں ہیں۔ اب الیکٹرانک ووٹنگ کے معاملہ میں تو حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن پر بدعنوانی جیسے سنگین الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے جس سے الیکشن کمیشن کی بطور ادارہ ساکھ ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذآرائی بھی شدت اختیار کر سکتی ہے۔ انتخابات سے پہلے پیدا ہونیوالی ایسی صورتحال پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنا سکتی ہے جس کی جمہوریت پر ہی زد پڑیگی اس لئے بالخصوص حکومت کو معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے ادارہ جاتی ٹکرائو کی فضا پیدا نہیں ہونے دینی چاہیے۔ جمہوریت کے استحکام کی آج کی مثالی فضا گدلی ہو گی تو اس سے جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ 

ای پیپر دی نیشن