معزز قارئین !۔ آپ نے میرے کل کے کالم میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے جدّی پشتی پیر و مُرشد حضرت غوث اُلاعظمؒ کا تذکرہ پڑھا ہوگا ۔ میرے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز، نائب رسولؐ فی الہند ، حضرت مُعین اُلدّین چشتی اجمیریؒ رشتہ میں ، حضرت غوث اُلاعظم ؒ کے بھانجے تھے ۔ خواجہ صاحبؒ نے اپنے بزرگ ( غوث اُلاعظمؒ) کی شان بیان کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …
یا غوثِ مُعظم ؒ، نُورِ ھُدیٰ، مختارِ نبی ؐ، مُختارِ خُدا!
سُلطانِ دو عالم ، قُطب عُلیٰ ، حیراں زِ جلالت ارض و سما!
…O…
یعنی ۔ ’’ یا با عظمت غوث اُلاعظم ؒ ،آپ ؒ ہدایت کے نُور ، رسول اکرم ؐ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے با اختیار ہیں ، دو جہانوں کے سُلطان ، قُطب عُلیٰ اور ارض و سماکی عظمت کا پیکر ہیں!‘‘ ۔
’’ بہت سے سُلطان / اولیائے کرامؒ !‘‘
نہ صِرف خواجہ غریب نواز ، نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتی ؒ اور بے شمار دوسرے اولیائے کرامؒ اور دُنیا کے لا تعداد سلاطین ، صدور اور وزرائے اعظم حضرت غوث اُلاعظمؒ کی عظمت اور فیض کا بیان کرتے رہتے ہیں۔ قائداعظمؒ بھی اُن سے ایک تھے ۔ جمہوریہ تُرکیہ کے بانی صدر جناب مصطفی کمال پاشا کو ’’ ترک قوم ‘‘ نے ’’ اتا تُرک‘‘کا خطاب دِیا تھا یعنی۔ (ترکوں کا باپ) ۔یعنی "Father of the Republic of Turkey"۔ جناب اتا ترک میں کمال یہ تھا کہ ’’ اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد قوم کے نام کردِی تھی۔
’’ بابائے قوم / قائداعظمؒ !‘‘
معزز قارئین ! ’’ بابائے قوم ‘‘ (Father of the Nation) حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا اور تحریک پاکستان کیلئے اپنے شانہ بشانہ مصروف جدوجہد اپنی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو، حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ اِسکے علاوہ قائداعظمؒ نے اپنے تین بھائیوں کو واپس بمبئی بھجوا دِیا تھا ، جنہوں نے آپؒ سے کاروبار میں کوئی فائدہ پہنچانے کا مطالبہ کِیا تھا۔
’’ مخالفین پاکستان ! ‘‘
افسوس تو یہ ہے کہ ’’ مختلف ادوار میں تحریک پاکستان کے بعض سیاستدان اور مذہبی رہنما ،فوجی آمروں اور نامکمل حکمرانوں کے ہمنوا بن کر قائداعظمؒ کی شان میں بد کلامی کرتے رہے !‘‘۔ خاص طور پر کانگریسی مولویوں کی باقیات ۔ جنوری 2019ء میں آصف زرداری کے والد کی ایک "Video Film" منظر عام پر آئی تھی جس میں حاکم علی زرداری نے حضرت قائداعظمؒ کے خلاف زبان درازی، ہذیان گوئی، دریدہ دہنی، الزام تراشی، بہتان، تہمت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے خود کے لئے بدنامی اور رُسوائی حاصل کرلی تھی ۔
’’سیّد یوسف رضا گیلانی!‘‘
ملتان کے سیّد یوسف رضا گیلانی (25 مارچ 2008ء سے 19 جون 2012ئ) تک وزیراعظم رہے ۔ مختلف مقدمات میں ملوث تھے اور اُنہیں وزارتِ سے نااہل ہونے اور مقدمات میں ملوث ہونے کا خوف تھا ۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ: ’’اگر مَیں وزیراعظم نہ رہا تو بھی مَیں گدی نشین تو رہوں گا !‘‘۔ گیلانی صاحب نے لاہور سے کراچی ٹرین مارچ کا اعلان بھی کِیا تھا ۔ معزز قارئین ! اِس پر 17 اگست 2012ء کے روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ میں مَیں نے اُنہیں مشورہ دِیا تھا کہ ’’ گیلانی صاحب! آپ ٹرین کے بجائے ’’ ڈاچی ‘‘ (اونٹنی) پر مارچ کریں ۔ کالم کا عنوان تھا ۔’’ گیلانی کی ’’ڈاچی ‘‘ ۔ لاہور سے کراچی !‘‘۔ کالم میں مَیں نے جنابِ غوث اُلاعظمؒ کا یہ شعر بھی لکھا تھا کہ …
شاہ در خرگاہ باشد نابُود و خبر گاہ شاہ!
در خرے باشد دراں خرگاہ نبود خرگہست!
ترجمہ:۔ ’’ اگر بادشاہ خیمے کے اندر ہو تو اُس خیمے کو بادشاہ کا خیمہ کہا جاتا ہے اور اگر خیمے کے اندر گدھا ہو تو اُس خیمے کو گدھے کا خیمہ کہا جاتا ہے ۔ خیمے کی اصل حیثیت اُس کے مکِین سے بنتی ہے !‘‘۔
’’ دوستدار ، گیلانی صاحبان ! ‘‘
مَیں 1926ء کو، سِکھوں کی ریاست نابھہؔ میں پیدا ہُوا تھا، اُس وقت سے لے کے آج تک میری غوث اُلاعظمؒ کے کئی فرزندوں ، گیلانیوں اور جیلانیوں سے ملاقات رہی ہے۔ 1940ء میں میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان کے ایک دوست سیّد دبیر حسین گیلانی صاحب سے میرا میل ملاپ شروع ہُوا جو اُس دَور میں تحصیلدار تھے ۔ مجھے میرے والد صاحب نے بتایا تھا کہ: ’’ گیلانی کے والدین راجستھان کی ریاست ’’ کوٹہ‘‘ کے رہنے والے تھے اور اُنکے والد صاحب مہاراجا ’’نابھہ ‘‘ کے اعلیٰ افسروں میں تھے !‘‘ ۔
میرے والد صاحب نے یہ بھی مجھے بتایا تھا کہ ’’مَیں اور میرے دوست دبیر حسین گیلانی اُن کی والدہ صاحبہ کے ساتھ گھر میں قرآن پاک بھی پڑھا کرتے تھے!‘‘۔ معزز قارئین ! سیّد دبیر حسین گیلانی بہت ہی خوبصورت اور خوب سیرت اِنسان تھے ۔ مَیں انہیں تایا جی کہتا تھا۔ تحریک پاکستان کے دَوران ریاست نابھہ اور مسلمان ریاست مالیر کوٹلہ کے درمیان مسلمانوں کی جن 14 بسوں کو سِکھوں نے شہید کردِیا تھا ، اُن میں سیّد دبیر حسین گیلانی صاحب ، میرے چچا رانا فتح محمد چوہان اور پھوپھا محمد صدیق سوندھی بھی شامل تھے ۔ دوستی کا سبق مَیں نے سب سے پہلے اپنے والد صاحب اور تایا جی سیّد دبیر حسین گیلانی سے سیکھا۔ جنوری 1999ء میں جب میرے والد صاحب کا انتقال ہُوا تووہ اپنے شہید دوست سیّد دبیر حسین گیلانی کو بھی یاد کر رہے تھے! ‘‘ ۔
انفارمیشن گروپ کے سینئر ترین آفیسر، سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات و صحت ، کئی سال سے میرے دوست سیّد انور محمود گیلانی نے بھی مجھے کبھی اُداس نہیں ہونے دیا ۔ اُن کی موجودگی اور غیر موجودگی میں مجھے مولا علی مرتضیٰ ؓ کا یہ مقولہ یاد رہتا ہے کہ ’’ وہ شخص غریب نہیں ہے ، جس کے دوست ہوں‘‘۔
معزز قارئین ! مجھے بہت دُکھ ہُوا تھا کہ ’’ جب 20 جون 2020ء کو اُردو اور پنجابی کی نامور شاعرہ و ادیبہ اور سیّد انور محمود کی اہلیہ بیگم نیرّ محمود ( میری بھابھی / بہن ) خُلد آشیانی ہوگئیں ۔ بیگم نیرّ محمود جب تک حیات رہیں وہ میرے بچوں خاص طور پر بیٹیوں سے خصوصی شفقت کرتی تھیں اور 11 اکتوبر 2008ء کو انتقال کرنے والی میری اہلیہ بیگم نجمہ اثر چوہان سے بھی۔ دونوں میاں بیوی نے میرے بیٹوں ، خاص طور پر بیٹیوں کی شادیوں کے جزیات میں بھی دلچسپی لیتے رہے ۔
٭…٭…٭