مافیاز کے درمیان گھرے پاکستان میں ایسی ایسی گھناؤنی اور منظم سازشیں ہوتی ہیں کہ ’’الامان الحفیظ ۔‘‘ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمی کے تیسرے دور کی بات ہے بھارت اور پاکستان کے درمیان 50 سے زائد آئٹمز پر ایک معاہدہ ہوا کہ یہ چیزیں براستہ پاکستان افغانستان پہنچائی جاسکتی ہیں۔حیران کن طور پراس فہرست میں گندم بھی شامل تھی۔کہا تو امدادی گندم کا گیا مگر منظورشدہ لسٹ میں سے امدادی کا لفظ ہٹا دیا گیا کیونکہ امدادی گندم تو ایک مرتبہ ہی بھیجی جا سکتی تھی جبکہ لسٹ کے مطابق منظور شدہ اشیاء تو روٹین میں جاتی رہنی تھیں ۔یہ پاکستان کی گندم کے ساتھ ایک بھیانک واردات تھی کیونکہ پاکستانی گندم کی سب سے بڑی مارکیٹ نہ صرف افغانستان بلکہ ایشیائی ریاستیں تھیں ۔ کبھی ایسا بھی دور تھا لاہور کی فلور ملوں کا آٹا ماسکو تک فروخت ہوتا تھا ۔ پاکستان کو گندم کی اس ایکسپورٹ سے اربوں روپیہ ملتا تھا۔بھارت میں بجلی سستی اور بعض علاقوں میں کسانوِں کیلئے مفت کھاد ، بیج سستا اور زرعی سہولیات پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہیں ۔ لہٰذا اس فیصلے سے پاکستان کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچنا تھا جس نے پاکستان کے گندم کے کاشتکار کو برباد کرکے رکھ دینا تھا ۔ مجھے اس گھناؤنی سازش کی معلومات بہاولپور سے میرے ایک دوست نے دیں اور بتایا کہ افسر شاہی نے یہ منظم واردات ڈال کر پاکستان کے کاشتکار کا مستقبل تاریک کردیا ہے۔ میں نے فوری طور پر پاکستان کے ایک بڑے مزاحیہ پروگرام کے اینکر آفتاب اقبال کو اس تمام صورتحال سے آگاہ کیا اورانہوں نے ا سی دن اپنے پروگرام میں میرا حوالہ دیکر اس سازش کو بے نقاب کردیا ۔ اگلے روز پروگرام آن ائیر ہوا تو پروگرام کے وقفے میں سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کا مذکورہ اینکر کو فون آگیا وہ پروگرام دیکھ رہے تھے اور یہ سنتے ہی پریشان ہوگئے۔ انہوں نے مذکورہ اینکر سے مزید تفصیلات لیں اور اینکر نے مجھے تمام تر تفصیلات لکھ کر فوری بھجوانے کا کہا ۔ تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا اور معاہدے پر دستخط ہوچکے تھے۔ میاں نواز شریف نے اگلی صبح وفاقی وزارت خوراک و زراعت کے کورنٹین ڈیپارٹمنٹ کو پہلا حکم جاری کیاکہ بھارتی امدادی گندم بھی افغانستان نہیں جانی چاہئے اور کسی بھی طریقے سے اسے روکا جائے۔ پھر وزارت خوراک و زراعت کا کورنٹین ڈیپارٹمنٹ حرکت میں آیا اور 48 گھنٹے کے اندراندر یہ حل نکالا گیا کہ بھارتی گندم پاکستان سے گزرنے کی صورت میں اس خطے کی فصلوں پر کھپرے اورکیڑوں کاحملہ ہوسکتا ہے کیونکہ بھارتی گندم کو بیماری لگی ہوئی ہے لہٰذا اس شق کا سہارا لیکر امدادی گندم کی آڑ میں بھارتی گندم کا پاکستانی حدود سے گزر کر افغانستان پہنچنے کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔اور پھر سابق وزیراعظم نواز شریف نے اس تمام تر کارروائی سے مذکورہ اینکر کو نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ان کا شکریہ بھی ادا کیا ۔
یہ بھولا بسرا قصہ آج مجھے اس وقت یاد آیا ۔جب ایک اور اسی قسم کی واردات کی بھنک میرے کانوں میں پڑی ۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ریکارڈ سہولیات دی ہیں اورپاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں بند پاور لومز اور ٹیکسٹائل کے یونٹ چلنا شروع ہوگئے ہیں جس سے لاکھوں مزدوروں کو دوبارہ روزگار ملا ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری گھاٹے سے منافع کی طرف اپنا بھرپور سفر شروع کرچکی ہے ۔ ہوا یوں کہ کئی سال بعد پاکستان نے پُھٹی کی قیمتوں کے حوالے سے بلند ترین سطح کو چُھوا ہے۔ گوکہ حکومت پاکستان نے کپاس کی کم سے کم قیمت 5 ہزار روپے فی من مقرر کررکھی ہے اور رواں سال موسم کی بھرپور مدد ، سرکاری سرپرستی اور انتظامی توجہ کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں بھرپور اضافہ ہوا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں کپاس کی یہ فصل 5800 روپے سے 7200 روپے فی من تک بھی فروخت ہوئی ہے ۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ روئی کے انٹر نیشنل اور لوکل ریٹ میں بھی کو ئی خاص فرق نہیں حالانکہ ہماری زرعی اِن پٹ مہنگی ہیں ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کاٹن کی انٹرنیشنل مارکیٹ سے خریداری کیلئے جو رجسٹریشنز کروا رکھی تھیں۔ کورونا کی پابندیوں کیوجہ سے اس کی سپلائی میں تاخیر کا براہِ راست فائدہ پاکستانی کسان کو ہورہا ہے اور سالہا سال بعد کسان کی کمر سیدھی ہوگئی ہے ۔ پاکستان کاٹن جیننگ ایسوسی ایشن نے بھی اپنی رپورٹ میں ڈنڈی ماری ہے اور اس وقت ایک کھیل کھیلا جارہا ہے کہ یورپ یا انٹرنیشنل مارکیٹ سے روئی کے آنے میں تاخیر ہے تو فوری طور پر بھارت یا ایران سے روئی خرید لی جائے ۔ ایران کا تو محض نام ہی ہے اصل ٹارگٹ تو بھارتی روئی ہے کیونکہ بھارت سے بہت جلد بارڈر کراس کر کے مال پاکستان پہنچ جاتا ہے ۔اس گھناؤنے کھیل کو کامیاب کرنے میں پاکستان کی کپاس کی فصل پر اعتراض کروایا جارہا ہے کہ اس میں آلودگی کی آمیزش زیادہ ہے اور پھر جونہی بھارتی کپاس پاکستان کی ٹیکسٹائل ملوں میں اُترے گی تو پاکستانی مارکیٹ میں پھٹی کا ریٹ گرجائیگا اور کئی سالوں بعد جو جننگ فیکٹریاں پاکستان میں چل رہی ہیں شاید انکی بھی ایک آدھ شفٹ بند ہوجائے ۔مافیا نے جنرز کے ساتھ ایک اور واردات ڈالی ہے اور اچانک اس پر سیلز ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کردیا ہے یہ بھی کپاس کی امپورٹ کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے ۔ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی ٹاٹا ، کوئی برلا اپنی قوم کا نہیں سوچتا کیا عوام کیلئے سہولتوں بارے سوچنا صرف غیر مسلموں کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے صنعتکار کی سوچ مختلف ہے وہ خیرات تو دیتا ہے مگر سہولت نہیں دیتا۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ پاکستانی کسان کو فائدہ ہوگا تو اگلے سال زیادہ رقبے پر کپاس کاشت ہوگی ۔کاشتکار فصل کی زیادہ حفاظت کریگا اور پاکستان کی معیشت مضبوط ہونے سے کاشتکار کے حالاتِ زندگی بھی تبدیل ہوں گے۔پاکستانی کپاس اور عالمی منڈی کی قیمتوں میں کوئی خاص فرق نہیں مگر ہمارا صنعتکار جب اسکی مقدار کو دیکھ کر ضرب تقسیم کرتا ہے تو اسے اچھا خاصا فرق نظر آتا ہے ۔
دوسری طرف ہمارا صنعتکار اور اسکی سہولت کار نوکر شاہی ہے جومعمولی ذاتی مفادات کی خاطر بھی اجتماعی مفادات کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔ سالہا سال سے تو یہ بھی ہوتا آیا کہ عین انہی ایام میں روئی درآمد کی اجازت دی گئی جن دنوں پاکستانی کپاس کی فصل مارکیٹ میں بکنے کیلئے پہنچ چکی ہوتی تھی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پُھٹی کو گندم کی طرح زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ پھٹی سے بنولے کو جلد علیٰحدہ کرنا ہوتا ہے۔ نجانے ایک بوٹی کیلئے اونٹ ذبح کرنے کی نوکر شاہی کی روش کب تبدیل ہوگی ؟