اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے سے قبل اس کے ممکنہ موضوع کی تلاش میں گھر آئے اخبارات کے پلندے پر سرسری نگاہ ڈالی تو ایف بی آر کی جانب سے جاری کئے اشتہار پر نظر جم گئی۔ اس کے ذریعے پاکستانیوں کو متنبہ کرتے لہجے میں یاد دلایا گیا تھا کہ رواں برس کے مالی سال کے لئے انکم ٹیکس گوشوارے داخل کروانے کی آخری تاریخ 30ستمبر ہے۔اس میں توسیع کی امید نہ رکھیں۔ وگرنہ روزانہ ایک ہزار روپے جرمانہ کی صورت ادا کرنا ہوگا۔ مجھے مذکورہ اشتہار کی بابت لاتعلق محسوس کرنا چاہیے تھا۔میری آمدنی جس برس ٹیکس ادا کرنے کے قابل ٹھہرائے افراد کی صف میں داخل ہوئی تھی تب سے گوشوارے باقاعدگی سے داخل کروانے شروع کردئیے تھے۔آخری ٹھہرائی تاریخ سے بلکہ کئی دن قبل ہی یہ عمل مکمل کرنے کی عادت اپنارکھی ہے۔
دل مگر یہ سوچنے کو یقینا مجبور ہوا کہ جدید ریاست کو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے ”شہری“ پکارے جاتے ہیں۔شہریوں کے چند فرائض کے علاوہ کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔حقوق کے احساس نے یہ جاننے کو مجبور کیا کہ میرے ”حقوق“ کیا ہیں۔ان کی بابت سوچتے ہوئے بالٓاخر خود کو بے بس رعایا ہی محسوس کیا ۔
کتابوں میں پڑھ رکھا ہے کہ جدید ریاست شہریوں سے جمع کئے محاصل کی بدولت مثال کے طورپر صحت عامہ کے نظام کو مو¿ثر تر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔رواں برس کے ماہ رمضان میں میرے ڈرائیور کے کم سن بچے کی سانس اکھڑنا شروع ہوگئی۔ وہ اسلام آباد میں سرکار کے چلائے ایک ہسپتال کی ایمرجنسی میں اسے لے گیا تو کوئی ڈاکٹر وہاں تشخیص کو بھی موجود نہیں تھا۔”افطار“ بہانہ تھا۔شدید گھبراہٹ میں اپنے بچے کو وہ ایک معروف نجی ہسپتال لے گیا۔وہاں کے ڈاکٹروں نے پھیپھڑوں میں ہنگامی صورت حال کی تشخیص تو کردی مگر اس کے علاج کی سہولتیں ان کے پاس میسر نہیں تھیں۔ اسے ایک اور ہسپتال ایمبولینس میں لے جانے کا مشورہ دیا۔ وہاں کی انتظامیہ یہ امر یقینی بنائے بغیر مریض کو ہاتھ لگانے کو بھی تیار نہیں تھی کہ علاج کا بل کون ادا کرے گا۔ مجھے فون پر ذاتی ضمانت دینا پڑی۔اس کے علاوہ ایک بااثر مگر انسان دوست صحافی بھائی سے تصدیقی فون بھی کروانا پڑا۔بچہ جانبر ہوگیا۔ اس کی وجہ سے لیکن جو بل آیا وہ میری بساط سے بھی بہت زیادہ تھا۔ اسے ادا کرنا مگر لازمی تھا۔فریضہ نبھانا ویسے بھی میری ذمہ داری تھی۔بھاری بھر کم بل کے باوجود بچہ مگر کامل شفایاب نہیں ہوا۔چند ہی ہفتوں بعد دوبارہ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی لے جانا پڑا۔ وہاں ڈاکٹروں نے اسے ایک دن رکھنے کے بعد ڈسچارج کردیا۔ تین روز بعد لیکن اس کا سانس دوبارہ اکھڑنا شروع ہوگیا۔
مشکل کی اس گھڑی میں میرے مخلص دوست ظفر بختاوری نے ایک انسان دوست ڈاکٹر سے رجوع کا مشورہ دیا ۔ وہ ادویات کی مشہور دوکان کے مالک ہیں۔جس ڈاکٹر سے بختاوری صاحب نے رابطہ کروایا انہوں نے بہت توجہ سے بچے کے مر ض کا حقیقی سبب دریافت کرلیا۔ ان کی تشخیص کی بدولت مجوزہ ادویات نے بچے کو بچالیا۔جو فیس اس ڈاکٹر نے چارج کی اسے ڈرئیور اپنی تنخواہ ہی سے ادا کرسکتا تھا۔ علاج بھی اس کی بساط سے باہر نہیں تھا۔بچہ اللہ کے فضل سے اب کامل شفایاب ہوچکا ہے۔میرا ڈرائیور بختاوری صاحب کے تجویز کردہ ڈاکٹر کو اپنا محسن شمار کرتا ہے۔میں ان کا نام لینے سے ہچکچارہا ہوں۔محض یہ کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ وہ سندھ سے آئے ایک غیر مسلم ڈاکٹر ہیں۔نہایت لگن سے اسلام آباد میں بچوں کے علاج پر اپنی صلاحتیں مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔یہ سوال مگر اپنی جگہ برقرار ہے کہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والا مجھ جیسا پاکستانی جو عمر کے ایسے حصے میں ہے جہاں جان لیوا بیماری کسی بھی وقت حملہ آور ہوسکتی ہے ہنگامی صورتحال میں کسی سرکاری ہسپتال جائے یا مہنگے ترین نجی ہسپتالوں سے رجوع کرے۔
جو سوال میں نے اٹھایا ہے کہ وہ روایتی میڈیا تو کجا”حق گوئی“ کی علامت بنے سوشل میڈیا پر بھی مناسب انداز میں اٹھا آپ کو سنائی نہیں دے گا۔یوٹیوب کے اکثر چینل بلکہ آپ کو ہر ”موذی مرض“ کے ”سستے اور شرطیہ کارآمد“ نسخے بیان کرتے سنائی دیتے ہیں۔ریاست چند اداروں اور ان کے اختیارات کی بدولت اپنا وجود ثابت کرتی ہے۔عمران خان صاحب روزانہ کی بنیاد پر ہماری ریاست کا کھوکھلا پن عیاں کررہے ہیں۔یوں کرتے ہوئے بسااوقات ضرورت سے زیادہ جارح بھی سنائی دیتے ہیں۔ان کے خیالات کی جس انداز میں عوامی پذیرائی ہورہی ہے اسے نظرانداز کرنا بھی حماقت ہوگی۔
غالباََ دو ہفتے گزرچکے ہیں۔آپ اگر گاڑی لے کر کسی پیٹرول پمپ پر جائیں تو آپ کی ٹینکی کا رخ کرنے سے قبل وہاں کھڑے ملازم آپ کو خبردار کریں گے کہ وہ پیٹرول کی قیمت نقد رقم کی صورت ہی وصول کریں گے۔بینکوں کے دئے اے ٹی ایم کام نہیں آئیں گے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں نقد ادائیگی کے تصور سے وہاں کے رہائشی بیگانہ بن چکے ہیں۔”کیش فری“ خریداری نئے زمانے کا دستور ہے۔ پاکستان کے پیٹرول پمپ مگر اسے اختیار کرنے کو اب آمادہ نہیں۔وہ مصر ہیں کہ بینک والے اے ٹی ایم کے ذریعے ہوئی ادائیگی کی وجہ سے ان کے ”منافع“ میں حصے کے طلب گار ہیں۔ہماری سرکار بآسانی بینکوں اور پیٹرول پمپ چلانے والوں کو باہم بٹھاکر کوئی مک مکا کرواسکتی تھی۔سرکار مگر تردد کرتی نظر ہی نہیں آرہی۔اے ٹی ایم والی سہولت لہٰذا کارآمد نہیں رہی۔
میں خریداری کا عادی نہیں۔انتہائی ضرورت کی اشیاءخریدنے ہی کسی دوکان پر جاتا ہوں۔بارہا ایسا ہوا کہ میں نے کوئی شے خریدنے کے بعد اے ٹی ایم دیا تو دوکاندار نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وہ یقینا اپنے ہاں ہوئی فروخت کو ریکارڈ پر لانا نہیں چاہتا۔ مشورہ دیتا ہے کہ میں کسی قریبی اے ٹی ایم مشین پر جاﺅں اور وہاں سے کیش نکال کر ادائیگی کروں۔میں انکار کروں تو واضح کردیتا ہے کہ اے ٹی ایم کے ذریعے ہوئی ادائیگی میری خریدی شے کی قیمت میں اتنا اضافہ کرے گا۔ کئی بار بتایا گیا اضافہ مجھے نامعقول لگامگر ضد یا سستی کے ہاتھوں ادا کرنے کو مجبور ہوا۔2022ءمیں بھی ”کیش فری“ خریداری پاکستان کا روزمرہّ معمول نہیں بن پائی ہے۔ہم مگر ابھی بضد ہیں کہ ہماری ریاست کو کئی دشمن مل کر ”سازشوں“ کے طولانی عمل سے ”ناکام“ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔