لاہور(کامرس رپورٹر )شدید گرمی کی لہریں آنے والی دہائیوں میں دنیا کے بیشتر حصوں کو 3 گنا زیادہ متاثر کریں گی۔ اس لئے دنیا کو انسانی زندگیوں اور معیشت پر شدید گرمی کے منفی اثرات کو بہت زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمنٹل سائنسز کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید احمد کی قیادت میں ماہرین ماحولیات کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر مہر کاشف یونس نے کہا کہ گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر کی اقوام کو ہر ممکن طریقے سے گرمی سے بچائو کی تدبیر کرنی چاہیے اور گرمی کا مقابلہ کرنے والی سوسائیٹیز کے قیام اور زیادہ پائیدار اور صحت مند مستقبل کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہوں گی۔ گرمی برداشت کرنے کی موافقت ہر ملک اور خطے میں مختلف ہوتی ہے اور شدید گرمہوتے ہوئے ماحول کے حوالے سے موجودہ عالمی ردعمل بڑی حد تک بے ساختہ ہے۔ انہوں نے کوویڈ کی وباء کے بعد دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابل موافقت کی منصوبہ بندی، فنانسنگ اور عمل درآمد میں کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ خشک سالی کی وجہ سے زرعی پیداوار کو بھی نقصان پہنچا ہے جس سے بعض ممالک اور خطوں میں غذائی عدم تحفظ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ردعمل سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوششیں سست روی کا شکار ہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت کے اقدامات بھی اس رفتار سے نہیں ہو رہے جس کی ضرورت ہے۔
گرمی کی شدید لہریں دنیا کے بیشتر حصوں کو 3 گنا زیادہ متاثر کرینگی:کاشف یونس
Sep 12, 2022