آئین شکنی کیخلاف قلمی جہاد

ترقی یافتہ ممالک کی ترقی اور پرامن ماحول کے رازوں میں ایک راز قانون اور آئین کی حکمرانی ہے۔یہی مہذب قوموں کا شعار ہے۔ان ممالک میں قانون سب کے لیے ایک ہے،آئین مقدم ہے۔ حکمرانوں سے لے کر عام شہری تک قانون کا احترام کرتا ہے ۔کریم آقاﷺ کے دور میں ریاست مدینہ میں قانون کی پاسداری اور نظام عدل ایک مثال ہے ۔ یہ طے ہے کہ ماورائے آئین اقدامات قوموں کے زوال کا سبب اور عدم استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ملک عزیز کی بدترین سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورت حال لمحہ فکریہ ہے اس کا حل آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی میں ہی ہے۔وطن دوست اور محب وطن لکھاری دن رات اس جانب توجہ مبذول کروا رہے ہیں لیکن یا تو ان کی آواز حکومتی ایوانوں اور عوام تک نہیں پہنچ رہی یا ہماری روایتی بے حسی اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں فوری اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوںکو معاف
معروف دانشور، صحافی اور کالم نگار جناب سعید آسی کی تازہ کتاب ”آئین کا مقدمہ“ آئین کی بالادستی کے حوالے سے عمدہ کاوش ہے۔ تین سو گیارہ صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ایک ایک لفظ عوام اورحکمرانوں کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش، رہنمائی کا ذریعہ اور آئین شکنی کے خلاف زبردست قلمی جہاد ہے۔ سعید آسی با شعور، محب وطن اور درد دل رکھنے والے کالم نگار ہیں۔ آپ کے والد گرامی تحریک پاکستان کے پر عزم اور سرگرم کارکن تھے ۔ پاکستان سے محبت آپ کو ورثہ میں ملی اس لیے آپ خراب ملکی صورت حال اور موجودہ سیاسی کلچر پر تڑپ اٹھتے ہیں اور اپنی قلبی کیفیات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہتے۔آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں۔ آپ نے ہمیشہ ہر دور کے حکمران کے اچھے عمل کی تعریف کی اور غلط پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔اپنے کالموں میں بروقت قومی مسائل کاقابل عمل حل بھی پیش کیا۔
آپ کا صحافتی کیریئر نصف صدی پر محیط ہے۔ رپورٹنگ سے لے کر کالم نگاری اور پھراداریہ نویسی تک کے طویل سفر میںدیانت داری کا دامن نہیں چھوڑا۔ لاہور شہر کی ایک متوسط آبادی میں ” پاک پتن ہاﺅس“ گواہی دے رہا ہے کہ آپ نہ بکنے والے اور نہ ہی جھکنے والے صحافی ہیں آپ نے اپنے اصولی نظریات پر سودا بازی نہیں کی ۔باعمل ،دھیمے مزاج، عاجزی، انکساری،شرافت اور گفتگو میں گنج شکر کی مٹھاس کی وجہ سے ہی جناب مجیب الرحمن شامی نے آسی صاحب کو کوچہ ءصحافت کا زندہ ولی کہا اور بالکل سچ کہا۔ بڑی پوزیشن پر ہونے کے باوجو آپ کے مزاج میں غرور اور تکبرنام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ایک بار راقم نے آپ کے گھر سے تقریبا ً دوکلومیٹر کے فاصلہ پر منعقد ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔پروگرام کے بعد آپ وہاں سے پیدل روانہ ہوگئے۔ آپ کا جذبہ خالص ہے اس لیے آپ خلوص کو پسند کرتے ہیں۔جب بھی آپ کو ادارہ معین الاسلام بیربل شریف میں کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ٓپ نے انکار نہیں کیا اور بڑی محبت سے پروگرام میں شامل ہوئے۔ناظم ادارہ پروفیسر محبوب حسین صاحب کی پر خلوص دینی و علمی مساعی کو پسند فرماتے اور کئی کالموں میں اس کا تذکرہ فرمایا۔روزنامہ نوائے وقت سے آپ کی طویل وابستگی بھی آپ کی مستقل مزاجی اور خلوص کی عمدہ مثال ہے۔
”آئین کا مقدمہ“ اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ یہ پاکستان کے موجودہ دور کی سیاسی، سماجی ، معاشی اور معاشرتی جھلک ہے۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کے رویوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ دلکش عنوانات ، تحریر کی روانی، بر محل پنجابی اور اردو اشعار اور محاورات قاری کو بور نہیں ہونے دیتے۔ مثلاً
اس شہر میں ہر شخص کا ایمان بکا ہے
قیمت مجھے معلوم ہے تم نام بتاﺅ
اسیں اپنے آپ مر جانا
ایہہ کھچ لو رسہ پھاہے دا
انداز بیان انتہائی سادہ اور سلیس ہے۔مطالعہ کے بعد معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ صحافت کے طالب علم کے لیے یہ کتاب استاد کا درجہ رکھتی ہے جو تحریر کے فن کو پختہ کرتی ہے۔معاشرہ کی اصلاح کا پہلوہمیشہ آپ کے پیش نظر رہتا ہے۔وطن کی مٹی سے محبت کا فلسفہ بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ۔ فرماتے ہیں کہ ” اگر بابا فرید گنج شکر کا یہ اشلوک ہمارے ذہنوں میں جا گزیں ہو جائے تو ہم دنیاوی جاہ و حشمت کے حرص و طلب سے بے نیاز ہوسکتے ہیں۔
فریدا خاک نہ نندئیے ،خاکوں جیڈ نہ کوئے
جیوندیاں پیراں تھلے ،مویاں اوپر ہوئے 

ای پیپر دی نیشن