شہادتیں تو 1947ءسے سر زمینِ پاکستان کا سہرا بنی ہیں اورآج تک ا±نکی بارات اپنے گھوڑوں کی لگامیں چھوڑنے کو تیار نہیں اس کے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے، جذبہ ایمان پہ دھمال ڈالے، خون آلود پیروں سے خار زار راستوں کو پارکرتے، اک لگن اور مستی و عشق میں یوں محو ہیں کہ دنیا حیران ہے کہ یہ کون سی قوم ہے۔ پوری دنیا پہ یہ بات واضح ہے کہ یہ قوم صرف قومِ مسلمان اور ا±متِ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ 6ستمبرکو ہم عظیم شہادتوں پہ خوشیاں منائیں یا بچھڑنے والوں کی جدائی میں ہچکیوں اورآہ زاریوں کی محفل سجائیں۔ شہادتوں کا سفر تو نجانے کب سے عشق و ایمان کے ساتھ ہاتھوں کی زنجیر بنائے جاری ہے۔
1947ءکے بعد سے 1948ئ، 1965ئ، 1971ءاور 1999ءکی جنگوں میں پاکستانی افواج اور عوام کی قربانیاں بے مثال ہیں۔ بزرگوں نے بھی جس طرح 1947ءمیں جوان بیٹوں کے زخمی جسموں کو ا±ٹھاکر سرحد پار کی اور سجدہ ریز ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا نہ ا±س وقت ا±نہیں اپنے خاندان کے قتل کیے جانے کا احساس تھا نہ اپنی جائے پیدائش چھوڑ کر ہجرت کرنے کا غم تھا سب جانتے تھے کہ وطن ا±ن کے تعمیر ہوتے ہیں جن کی ملت ا±س کی معمار ہو۔ اوربات ا±س وقت ایک وطن کی تھی پھرآنے والے ہر نئے معرکے میں پاکستان کی سلامتی مطمح نظر رہی، مگر شہادتیں تو خاکی وردی پہننے والے محافظوں سے بھی بہت آگے نکل گئیں۔ وطن کی سرحدوں سے نکل کر شہروں اور گلیوں، مساجد اور سکولوں تک پھیل گئیں۔ یوم شہداءمیں ایک عشرہ پہلے جتنے شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا آج ا±ن کی تعداد کئی گ±نا بڑھ چکی ہے۔دہشت گردی کا وہ گھمسان کا رَن پڑا ہے کہ دھماکوں کی آواز سے کان مانوس سے ہو گئے ہیں۔ سرحدوں پہ دشمنِ اسلام سے مقابلہ اور جاں فروشی فرضِ جہاد، فرضِ مسلمان کے زمرے میں آتا ہے مگر یہ دہشت گرد مسلمانوں کے ح±لیے میں کلمہ حق پڑھتے ہوئے جب ظلم و بربریت کی مثال بن جاتے ہیں تو اسلام پھیلنے کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب نبی کریم نے فرمایا تھا کہ منافق سے بڑا دشمن مسلمان کا کوئی نہیں، تو یہ سب منافقین ہیں۔ جنہوں نے اپنی مرضی کی جنت اور دوزخ بنا رکھی ہے۔ قانون اور اصول اور ضابطے مقرر کر رکھے ہیں۔ ا±ن کی گ±ھٹی میں شاید شہد کی جگہ بارود کا سفوف چٹایا جاتا ہے۔ معصوم اور نوعمر انسانوں کو ظلمت کی بھینٹ چڑھانا کہاں کی انسانیت ہے۔ مساجد کیلئے جمعے کی نماز کے وقت جہاں ایان اور عبداللہ جیسے بچے سکول سے صرف اس لیے جلدی واپس آئے کہ ہماری جمعے کی نماز قضا نہ ہو جائے ، جہاں زبیری صاحب کے والد وہیل چیئر پہ باوجود بیماری کے جمعہ پڑھنے جاتے ہیں۔ اس مسجدکو دہشت گردی کا نشانہ بناناکہاں کی مسلمانیت ہے؟ اور جب بچے کہیں کہ ہمیں ماں کے پاس جانا ہے وہ ہمارے انتظار میں ہے تو گردن سے پکڑ کر ا±سے اوپر ا±ٹھا کر اس کی پیشانی پہ جہاں ماں اپنے ممتا بھرے ہونٹوں سے چومتی تھی، بندوق کی گولی داغ دینا وحشت اور بربریت کا غماز ہے کہ نہیں۔ اور پھر کن کن شہیدوں کو یاد کریں؟ گیاری سیکٹر میں گلیشئیر کے نیچے دب جانے والی سپاہ کویاپھر ان کوجو بھارت کی خلاف محاذ جنگ میں کئی راتیں سوتے نہیں، برف کے اِگلو میں کھڑا نہیں ہو سکتے جو خطرناک حد تک اونچی برفیلی چوٹیوں پہ صرف اپنے جذبے اور اللہ کی مدد سے یوں چڑھ جاتے ہیں جس کا گمان بھی ناممکن ہے۔ ہزاروں فٹ گھاٹیوں میں گونجتی آوازیں اور شہیدوں کی زندہ روحیں وہاں آج بھی اپنوں کو پکارتی ہیں۔ پھر وزیرستان میں جامِ شہادت نوش فرمانے والی ہماری سپاہ، افسر اورجوان جس مشکل محاذ پہ قدم رکھتے ہیں وہاں سے فتح لے کے نکلتے ہیں۔ اپنے شہیدوں کو کندھوں پہ ا±ٹھائے زخم خوردہ سپہ کو ساتھ لیے ہوئے اپنے اسلحے کا ایک پرزہ بھی دشمن کی زمین پہ نہیں چھوڑ کر آتے۔ بریگیڈیئر بابر امین کے بیٹے فصیح نے جو معرکہ مارا کہ فتح یاب ہونے کے بعد جب پتہ چلا کہ دشمن کی زمین پہ شہید کا جسد خاکی رہ گیاہے تو وہ اسے لینے کی خاطر واپس پلٹے اور شہادت نوش فرمائی۔ ہماری وہ بہنیں جو شہید کی بیگم کہلاتی ہیں زمانہ کے سامنے بہت بہادری سے زندگی گزارتی ہیں مگر جب چھوٹے یتیم بچے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بابا کب آئیں گے؟یا کسی کے سوال پہ کہتے ہیں ہم نے تو بابا کو صرف تصویر میں دیکھا ہے تو وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔ بات شہیدوں اور دہشت گردی پہ کریں تو شاید صفحات کم پڑ جائیں مگر جب ایک نظر ہم ضربِ عضب اور ردالفساد پہ ڈالیں تو ایسے جیسے مردہ جسموں میں جان آجاتی ہے شہیدوں کے اہل خانہ کی آنکھوں سے برسنے والے آنسو تھم جاتے ہیں۔ ہم اپنے پیاروں کے خون کے مقروض ہیں اور یہ قرض افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ حکومت اور عوام بھی مل کر ا±تار رہے ہیں۔
٭....٭....٭