رائے عامہ

عنوان سے آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں عوام میں کوئی رائے ہموار کرنا چاہتا ہوں یا عوام اس وقت کیا سوچ رہے ہیں اس بارے میں کچھ کہنا چاہ رہا ہوں لیکن ’رائے عامہ‘ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پاکستان کے ایک انتہائی دبنگ محنتی، حب الوطنی سے سرشار ایمان دار افسر کی زندگی کا نچوڑ ہے جو انھوں نے ایک کتابی شکل میں ’رائے عامہ‘ کے عنوان سے محفوظ کی ہے۔ رائے ریاض حسین چونکہ چار وزرائے اعظم کے پریس سیکرٹری رہے۔ پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے سربراہ رہے ۔بھارت، جاپان اور سری لنکا میں پریس منسٹر رہے ۔وہ پاکستان کی سیاست کے بہت سارے کھیلوں کے عینی شاہد ہیں۔ بےشمار واقعات کے گواہ ہیں۔وہ کسی بھی شخصیت سے ملنے کے چند لمحوں بعد اس کا ایکسرے کر لیتے ہیں۔ ان کی آبزرویشن بہت زبردست ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی کسی کے بارے قائم کردہ رائے اکثر درست نکلتی ہے ۔کہتے ہیں مشورہ یا رائے امانت ہوتی ہے اس میں ڈنڈی نہیں مارنی چاہیے ’ رائے عامہ‘ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ واقعی انھوں نے کہیں ڈنڈی نہیں ماری۔ انھوں نے کئی اہم شخصیات کی ذات میں محسوس کی جانے والی اچھائیوں کو بھی بیان کیا ہے اور خامیوں پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مثال کے طور پر میاں نواز شریف کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ وہ دستر خوان پر خود ڈونگا اٹھا کر ایک اچھے میزبان کی طرح اپنے مہمانوں کو سرو کرتے تھے۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں جب 1990 ءکے انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو روزنامہ نوائے وقت سے انور قدوائی روزنامہ جنگ سے پرویز بشیر اور پاکستان سے راقم کو اپنے ہیلی کاپٹر پر لے جایا کرتے تھے ۔کئی بار ایسے ہوا کہ واپسی پر والٹن ائیر پورٹ لینڈ کرنا تو وہ اپنے گھر ماڈل ٹاو¿ن لے جاتے ۔خانساماں کھانے کی ریڑھی لے کر آتا تو اسے اشارے سے باہر بھیج دیتے اور اپنے ہاتھوں سے پلیٹیں دیتے اور خود سالن ڈال کر دیتے۔ ایک وزیراعظم کا ایسا کرنا خواب لگتا تھا لیکن ایسا کئی بار ہوا ۔پھر وہ اپنے مہمانوں کو دروازے تک چھوڑنے کے لیے آتے لیکن دوسری طرف وہ اپنی ضد کے بھی بہت پکے تھے جس بات پر سٹینڈ لے لیتے چاہے جتنا بڑا نقصان ہو جائے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ اسی طرح رائے ریاض حسین نے اپنی کتاب میں بے شمار واقعات تحریر کیے ہیں جن کی وجہ سے بہت ساری شخصیات کے بارے میں ان کے حوالے سے پائے جانے والی پرسپیشن بھی کلیر ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں مولانا فضل الرحمن کے بارے لکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمن جب بھارت آئے تو ان دنوں مقبوضہ کشمیر میں شہید ہونے والے نوجوانوں کاذکرتھا جنھیں دہشت گرد قرار دے کر مار کر پاکستان سے جوڑا جا رہا تھا جبکہوہاں کے ایک اخبار نے خبر دی کہ یہ تو کبھی پاکستان گئے ہی نہیں ۔میں نے اس بارے ایک پر جوش تقریر کر دی لیکن میں نے محسوس کیا کہ میں مولانا فضل الرحمن سے مخاطب نہیں ہوں بلکہ کسی دیوار کے ساتھ ٹکریں مار رہا ہوں ۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کے مظالم سے مکمل لاتعلقی میرے اندر ایک ہیجان برپا کر گئی میں حد درجہ مایوس اور افسردہ ہو کر دیوبند کے دفتر سے واپس آگیا۔ اگلے دن مولانا فضل الرحمن پاکستان ہائی کمیشن کے دفتر میں آئے میں نے وہاں بھی کشمیر میں ظلم کی بات کی لیکن مولانا وہاں بھی لا تعلق رہے یہاں سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن پر جو انگلیاں اٹھتی ہیں وہ ایسے ہی نہیں اٹھتیں۔ اسی طرح انھوں نے کچھ اور شخصیات کو بھی بے نقاب کیا ہے 2006 ءمیں بھارت کے ایک اخبار نے ایک سیمینار کروایا تھا جس میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم جان میجر،اردن سے ملکہ نور، پاکستان سے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور عمران خان مدعو تھے سیمینار سے کچھ دن پہلے پاکستان ہائی کمیشن کے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ائیر پورٹ سے آنے والی سڑک پر الطاف حسین کی تصویروں والے بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے ہیں کسی پاکستانی کی بھارت میں اس طرح کی پذیرائی شاید پہلی اور آخری دفعہ کی گئی تھی ۔کسی بھارتی اخبار میں اتنی جرا¿ت نہ تھی کہ وہ کسی پاکستانی کی اس طرح تصویریں لگواتا ۔جب میں نے بھارت صحافیوں کو کریدا تو ان کا اشارہ’ را‘ کی طرف تھا۔ سیمینار والے دن ہمیں تجسس تھا کہ الطاف حسین کیا بات کریں گے ان کی تقریر سے پہلے عمران خان نے بہت اچھی تقریر کی لیکن جب الطاف حسین نے تقریر کی تو ان کے الفاظ سن کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاوں الطاف حسین نے کہا کہ دہلی ائیر پورٹ پر اترتے ہی میں نے دائیں بائیں دیکھا میں نے اوپر دیکھا نیچے دیکھا تو مجھے سب کچھ اپنا اپنا سا لگا اس کے بعد الطاف حسین نے ایک پرچی نکالی جو غالباً اس کے میزبانوں نے اسے دی تھی انگریزی میں اس نے پڑھا Creation of Pakistan was the biggest blunder of the history پھر انھوں نے اردو میں کہا دہلی والو۔ ہمیں وہاں مہاجر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اگر اب ہمیں یہ طعنہ دیا گیا اور ہم نے آپ سے پناہ مانگی تو آپ دو گے ؟لیکن کسی نے جواب نہ دیا میں نے یہ خبر پاکستان کے میڈیا کو لیک کر دی جو نوائے وقت میں شائع بھی ہوئی۔ رائے ریاض حسین نے اپنی کتاب میں انڈیا، سری لنکا اور جاپان کی قوموں کی نفسیات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ کئی واقعات بہت دلچسپ ہیں اسی طرح انھوں نے پاکستان کی بیورو کریسی، فوج اور سیاستدانوں بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے جن کا ذکر ایک کالم میں ممکن نہیں۔

ای پیپر دی نیشن