بزرگ کشمیری قائد اورجموں کشمیر کے عظیم رہنما سید علی گیلانی کا یوم شہادت انتہائی عقیدت و احترام سے منایا گیا۔حریت کانفرنس کی اپیل پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی اور مظاہروں کے دوران پورا کشمیرہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے' کے نعروں سے گونجتا رہا۔کشمیری عوام کی بڑی تعداد نے اپنے محبوب قائد کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کے لیے حیدر پورہ میں واقع ان کی رہائش گاہ کی طرف مار چ کی کوشش کی تاہم بھارتی فورسزاہلکار کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر کے کشمیریوں کو وہاں جانے سے روکتے رہے۔ اس دوران مختلف علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے جب کہ تمام تر پابندیوں کے بعد کشمیریوں کی کثیر تعداد حیدر پورہ پہنچنے میں کامیاب رہی۔ سید علی گیلانی کی شہادت کا ایک سال مکمل ہونے پر مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام میں جذباتی ماحول دیکھنے میں آیا۔ کشمیری جماعتوں کی اپیل پر مساجد اور گھروں میں خاص طور پر دعا¶ں کا اہتمام کیا گیا اورتحریک آزادی میں جام شہادت نوش کرنے والے تمام شہداءکے لیے بلندی درجات کی دعائیں کی گئیں۔سید علی گیلانی کے یوم شہادت پر مظفرآباد آزادکشمیر اور اسلام آباد سمیت دیگر علاقوں میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔ پاکستان میں بھارتی ناظم الامور کودفتر خارجہ طلب کر کے شہید کشمیر کو ان کی وصیت کے مطابق تدفین کے حق سے محروم کر نے اور آرٹیکل 370 کی دفعات ختم کرنے کے بعد سے جاری بدترین ریاستی دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی۔اسی طرح آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بزرگ کشمیری قائد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے لیے ان کی زندگی بھر کی جدوجہد آنے والی نسلوں کو ہمیشہ متاثر کرتی رہے گی۔ پاکستانی قوم بہادر کشمیری رہنما کو ان کی شاندار مزاحمت اور جموں کشمیر میں بھارتی جبر اور مظالم کے خلاف لڑنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور دیگر رہنما¶ں کی جانب سے بھی شہید کشمیری قائد کوشاندار الفاظ میں خراج عقید پیش کیا گیا۔
سید علی گیلانی ایک فرد ہی نہیں پوری ایک تحریک کا نام تھا۔ وہ جسمانی طور پر ناتواں تھے لیکن ان کا عزم بہت پختہ اور مضبوط تھا۔ وہ عزم و ہمت کے کوہ گراں اور جدوجہد آزادی کا استعارہ تھے۔ اپنی پوری زندگی نہ وہ خود کبھی بھارت کے سامنے جھکے اور نہ کبھی کشمیری قوم کو ان کے سامنے جھکنے دیا۔ وہ بھارت کے غیر قانونی قبضہ کے خلاف اٹھنے والی سب سے مضبوط آواز تھے۔ ان کا یہ نعرہ ''ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہیں'' آج بھی وادی کشمیرسمیت پوری دنیا میں گونجتا سنائی دیتا ہے۔بزرگ کشمیری قائد نے 92برس کی عمر میں وفات پائی۔ وہ 29 ستمبر 1929ءکو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور پھر تعلیم کے سلسلے میں لاہور آکر اورینٹل کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ واپس سری نگر چلے گئے اور سیاست میں باقاعدہ طور پر قدم رکھا۔ پہلی مرتبہ انہیں 1962ءمیں بھارتی فوج اور حکومت کے نہتے کشمیریوں پر مظالم کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا جس پر وہ تیرہ ماہ قید رہے۔ تقریبا دو سال بعد انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، اس موقع پر وہ دو سال کے قریب جیل میں رہے۔ وہ ستر اور اسی کی دہائی میں تین مرتبہ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے رکن رہے تاہم1987 میں انہوںنے سیاست چھوڑ کر حریت کا راستہ اختیار کر لیا۔ 1992ء میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی تو سید علی گیلانی اس کا حصہ بن گئے۔نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تو بزرگ لیڈر نے اعلانیہ طور پر اس کی مخالفت کی اور اس حوالے سے سخت ناراضی کا اظہارکیا۔ 2004ءمیں سید علی گیلانی اورمحمد اشرف صحرائی نے تحریک حریت کی بنیاد رکھی اور بھارتی ظلم و جبر کے خلاف اپنی جدوجہد کو پوری قوت سے جاری رکھا۔
سید علی گیلانی الحاق پاکستان کے زبردست حامی تھے اور اس حوالے سے کبھی کسی قسم کی مصلحت پسندی کا رویہ اختیارنہیں کیا۔ بھارتی ایجنسیوںکی سابق عہدیداران اور کئی بھارتی لیڈروں کے یہ بیانات ہندوستانی میڈیا میں شائع ہوتے رہے ہیں کہ انہیں کشمیر میں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا سید علی گیلانی کی طرف سے رہا اور وہ آج تک انہیں خریدنا تو دور کی بات، ان کے دوٹوک م¶قف اور اسلام و پاکستان سے محبت کی وجہ سے ان سے ایسی کوئی بات کرنے کی بھی جرا¿ت نہیں کر سکے۔ بزرگ کشمیری لیڈر کشمیریوں کی مزاحمت کی علامت تھے۔عمر بھر جیلوں میں گزارنے اور بے پناہ ظلم و تشدد برداشت کرنے کے باوجودکشمیر کاز پر غیر متزلزل عزم سے ڈٹے رہے اور مصائب و مشکلات اور ظلم و دہشت گردی کا کوئی بھارتی ہتھکنڈا ان کے آہنی عزم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔ سید علی گیلانی اور ان کے اہل خانہ نے پوری زندگی آزادی کشمیر کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھی تھی اوراس جرم کی پاداش میں ان کے پورے خاندان کو ہمیشہ سخت آزمائشوں کاسامنا کرنا پڑالیکن کوئی بھارتی حکمران اور فوج کے کارندے انہیں اپنے سامنے جھکانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ سید علی گیلانی نے کشمیری قوم کی تین نسلوں کو نیا عزم و حوصلہ دیا اور تحریک آزادی کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر دور میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ کشمیریوں کی تحریک کے حقیقی ہیرو تھے جو لمحہ بھر کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ان کی وفات پر کرفیو لگا کر کشمیریوں کو تو نماز جنازہ میں شریک نہیں ہونے دیا گیا تاہم مقبوضہ کشمیراور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ کے بڑے اجتماعات ہوئے جن میں سیاسی، مذہبی وکشمیری لیڈروں سمیت تمام مکاتب فکراور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور اپنے محبوب قائد سے دلی وابستگی اور محبت کا اظہار کیا۔ان کی وفات پر مقبوضہ کشمیر کے گلی کوچوں میں ہر طرف تکبیر اور آزادی کے نعرے سنائی دیتے رہے۔ ان کا یہ نعرہ کہ اسلام کے رشتے سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے، حقیقت میں صرف ایک نعرہ ہی نہیں پورا ایک نظریہ ہے جس پر انہوںنے کشمیری قوم کی تربیت کی ہے، یہی وجہ ہے کشمیری قوم کا بچہ بچہ ہر مشکل وقت اور حالات میں غاصب بھارت کے خلاف سینہ سپر نظر آتاہے۔
سید علی گیلانی جس طرح اپنے قلب وروح کی پوری وابستگی کے ساتھ جدوجہد آزادی کشمیر کو پروان چڑھاتے رہے، اس پر پوری امت مسلمہ انہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ محمد اشرف صحرائی کی طرح ان کی وفات بھی درحقیقت حراستی قتل تھا۔ کشمیریوں کے ہردلعزیز قائد طویل عرصہ سے بیمار تھے اور نقاہت اس قدر تھی کہ بات کرنا مشکل تھا لیکن بھارت سرکار نے انہیں ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے لیے ان کے لیے نماز جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادائیگی پر بھی پابندی لگا رکھی تھی اور شدید بیماری، طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور مسلسل قید تنہائی کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا جس پران کی صحت مزید بگڑ گئی اور صحیح معنوں میں ان کے علاج معالجہ کی طرف توجہ بھی نہیں دی جا سکی۔ عمر رسیدہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سازشوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ بھارتی حکومت، فوج اور اس کی ایجنسیوںنے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کشمیر میں بھی مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے اور وہاں بھی تکفیری اور خارجی گروہوں و تنظیموں کو پروان چڑھاکر دھماکوں اور خودکش حملوں کو پروان چڑھایا جائے لیکن سید علی گیلانی کے ہوتے ہوئے ان کی یہ سب سازشیں ناکام ہوئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بزرگ کشمیری قائد کی عظیم جدوجہد کو سامنے رکھتے ہوئے پوری کشمیری قوم باہم متحدہو کر بھارتی سازشیں ناکام بنانے کے لیے کردار ادا کرے اور حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ دنیا بھر کے تمام فورمز پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھے اور اس حوالے سے کسی غفلت سے کام نہ لیا جائے۔