پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد روزِ اول ہی سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے کیونکہ اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں وہ کسی نہ کسی درجے پر متنازعہ ہی قرار دیے جاتے رہے ہیں۔ ان کے نتائج پر بھی کبھی اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ چنانچہ مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں کی طرف سے انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ اکثر و بیشتر سامنے آتا رہا ہے۔ اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام ا نتخابات میں استعمال ہونے والے ریزلٹ مینجمنٹ سسٹم ( آر ایم ایس ) کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں تیز کرتے ہوئے نتائج کی وصولی کے لیے نئے نظام کے خدوخال طے کرلیے ہیں، اب تھرڈ پارٹی آڈٹ کے بعد آر ایم ایس کو سرٹیفائیڈ فرم سے الگ تیار کرایا جائے گا۔ اس تیاری کا مقصد نظام کا بیک اپ رکھنا ہے۔ نئے آر ایم ایس میں نتائج کی پولنگ سٹیشنوں کے حساب سے وصولی، پارٹی پوزیشن اور ٹرن آﺅٹ سمیت دیگر آپشنز موجود ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے آئندہ انتخابات کے حوالے سے تیاریوں کو مہمیز دینے کے ساتھ ساتھ انتخابی نتائج کی وصولی کے لیے نیا سسٹم تیار کرنے کا عمل اطمینان بخش بھی ہے اور لائقِ تحسین بھی کہ اس سے انتخابی نظام اور انتخابی نتائج پر اعتباریت کی سند مل سکے گی لیکن اصل ضرورت اس سسٹم سے متعلقہ عملے کی کماحقہ آگاہی ہے، جس کے لیے انتخابی عملے کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے آشنا کیا جانا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ووٹرز تو کجا خود انتخابی عملہ بھی نئے متعارف کیے جانے والے سسٹم سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے نہ صرف نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ مطلوبہ مقاصد بھی حاصل نہیں ہو پاتے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ عملے کو بھی مکمل تربیت دینے کا اہتمام کرے، محض سسٹم بنا لینا اور اس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہی کافی نہیں۔ آڈٹ رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کرنے اور اس سسٹم کو متعلقہ عملے کے لیے ’قابلِ قبول‘ بنانے کی بھی سنجیدہ کوشش کرنا ضروری ہے تاکہ جب اس سسٹم کے استعمال کا وقت آئے تو اس میں کسی قسم کی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے اور مطلوبہ مقاصد بھی حاصل ہو سکیں۔