اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا دورہ¿ پاکستان اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ اس دورے کی وجہ سے سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں مزید تیزی آئے گی اور پاکستان کے مختلف حصوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی خبر دنیا کے ان گوشوں تک بھی پہنچے گی جہاں اب تک یہ بات نہیں پہنچ پائی تھی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ انتونیو گوتریس نے اس دورہ کے موقع پر متاثرین کی بحالی کے لیے عالمی برادری سے امداد کی جو اپیل کی ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ انھوں نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور متاثرین کی بحالی کے سلسلے میں جاری امدادی کاروائیوں کا جائزہ لینے کے لیے سندھ اور بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ انھوں نے سیلاب زدہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا اور سندھ اور بلوچستان میں کئی مقامات پر متاثرین سے ملاقات بھی کی۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہولناک ہیں، پاکستان دوسرے ملکوں کی پیدا کردہ آلودگی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے، سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں، دنیا کی ذمہ داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دے۔ انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے اس اندوہناک سانحہ پر آپ سب سے یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک نے ماحولیات کو آلودہ کردیا ہے، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے سیلاب آرہے ہیں، اسی صورتحال کا سامنا پاکستان کو بھی ہے۔ پاکستان اس ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار نہیں لیکن دوسرے ممالک کی پیدا کردہ آلودگی کا شکار ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال بڑے پیمانے پر مدد کی متقاضی ہے۔ اکیلا پاکستان اتنے وسائل نہیں رکھتا کہ وہ اس کا ازالہ کر سکے۔ جن ممالک نے یہ حالات پیدا کیے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کریں۔
انتونیو گوتریس نے جو کچھ کہا وہ بہت اہم بھی ہے اور قابلِ غور بھی۔ اگر یہ باتیں پاکستان یا کسی بھی اور ترقی پذیر ملک کے رہنما کی طرف سے کی جاتیں تو شاید دنیا کے لیے قابلِ اعتنا نہ ہوتیں لیکن اب جبکہ سب سے بڑے عالمی ادارے کا سربراہ یہ باتیں کہہ رہا ہے تو بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کو ان کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ان پر غور کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ ایک طرف وہ انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معصوم لوگوں کا جانی نقصان ہورہا ہے۔ اندریں حالات، اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے ایک ایسا عالمی نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا مکمل طور پر جائزہ لیا جائے اور ان نقصانات کے ازالے کے لیے رقوم ان ترقی یافتہ ممالک سے حاصل کی جائیں جو مادی ترقی کی دوڑ میں کسی بھی قسم کی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ مختلف مدات میں حاصل کی جانے والی امداد کا متاثرین تک پہنچنا بھی ایک بڑا چیلنج تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں انھیں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے جمع ہونے والے فنڈز اور اخراجات کے حوالے سے شفافیت یقینی بنانے کے لیے 6 اہم سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ تمام فلڈ فنڈز پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004ءکے تحت خرچ کیے جائیں جو شفافیت، خود احتسابی اور معلوماتی نظام تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مانیٹرنگ میں فنڈز اور سامان و خدمات دونوں کو شامل ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں، وہ غیر سرکاری تنظیمیں یا این جی اوز جو سیلاب کے نام پر اپنے بینک اکاو¿نٹس میں بین الاقوامی اور مقامی عطیات جمع کر رہی ہیں انھیں امداد کے بہاو¿، اسے مختص کرنے اور تقسیم کے عمل وغیرہ میں مکمل شفافیت کے لیے قومی ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے ان معاملات کو ہر کسی کے لیے قابلِ رسائی بنانا چاہیے۔
سیلاب متاثرین کی بحالی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس سے میں چند ماہ سے لے کر کئی سال تک کا وقت لگ سکتا ہے لیکن حکومت کے لیے اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے باعث مستقبل میں آنے والی قدرتی آفات سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کیسے کی جائے۔ مختلف بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کو آئندہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا، لہٰذا مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی توجہ دیں کہ مستقبل میں پیدا ہونے والی ایسی صورتحال سے ملک کو کیسے بچانا ہے۔
انتونیو گوتریس کا دورہ¿ پاکستان اور سیلاب متاثرین کی بحالی
Sep 12, 2022