محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
اس وقت وطن عزیز سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے۔ ہر جگہ ہی ایسی ایسی داستانیں پڑھنے ،سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے ۔کیا سیلاب کی زد میں آنے والے لوگ جانتے تھے کہ یکا یک ان کا سب کچھ یوں لٹ جائے گا؟جس گھر میں ہنسی ،قہقہے گونجتے تھے،سب پیار محبت سے زندگی بسر کررہے تھے ۔ سیلابی ریلہ سب کچھ ملیامیٹ کر دے گا؟ان کے آنکھوں کے سامنے ان کے پیارے سیلابی پانی کی تیز لہروں کی نذر ہو جائیں گے اور وہ چاہ کر بھی انہیں بچا نہیں پائیں گے۔کیا ایسی بے بسی کا کسی نے سوچا ہو گا ہرگز نہیں۔انسانی فطرت ہے کہ جب وہ آسائشوں میں رہتا ہے تو اس کا دھیان بھی اس طرف نہیں جاتا کہ ایک ذات اوپر بھی بیٹھی ہے جو سب دیکھ رہی جس کے ہاتھ میں نظام قدرت ہے وہ جب چاہے زندگی کی کایہ پلٹ دے،بس یہی لا پرواہی ایسی تباہوں کا سبب بنتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں۔" خشکی اور تری میں جو تغیر و تبدل ہوتا ہے یہ لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے "ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ " ہم تمہیں خوف، بھوک، اولاد اور پھلوں، زراعت وغیرہ میں نقصانات کر کے آزمائیں گے کہ کون تم میں صبر کرتا ہے اور کون نہیں کرتا"۔
اگر ان آیات مبارکہ پر غور کریں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قدرتی آفات ہمارے اعمال کے نتیجے کے ساتھ ساتھ ہماری آزمائش کےلئے بھی نازل ہوتی ہیں۔یہ آزمائش صرف ان کےلئے ہی نہیں جو سیلاب سے متاثر ہوئے بلکہ ان کی بھی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مظلوم و بے بس لوگوں کی مدد کی توفیق دے رکھی ہے ۔ حدیث مبارکہ کا مفہ وم ہےکہ" جو شخص کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی ایسے موقع پر مدد کرے گا جب اسے اس کی ضرورت ہوگی"۔
کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان میں سیلاب نے تباہی مچائی ،قدرتی آفات ماضی میں بھی آتی رہی ہیں۔ اس سے پہلے 2010ئ میں بھی پاکستان کو بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کی وجہ سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس سیلاب میں 1700 سے زائد افراد جاں بحق جب کہ 20لاکھ سے زائد لوگ براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ اس سیلاب کی وجہ سے ملک کے مجموعی قابلِ کاشت رقبے میں سے 20 فیصد پر موجود فصلیں تباہ ہوئیں اور 11لاکھ 20 ہزار 978مکانوں کو نقصان پہنچا تھا۔ اس سیلاب کی وجہ سے مجموعی طور پر 1710ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جب کہ تعمیرِ نو کی سرگرمیوں پر 1156ارب روپے کے اخراجات آئے تھے۔ ایسی قدرتی آفات سے نمٹنے میں اب تک وہی قومیں کامیاب ہوئیں، جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کیا ۔ہمارے ہاں پیشگی اطلاع کے باوجود حفاظتی انتظامات نہ کرنا بڑا المیہ ہے۔ہمارے ہاں ہنگامی منصوبے بنانے کے لئے جدید اور خود کار سائنسی نظام وضع نہیں ۔ ہم نے ڈیموں کی تعمیر کو سیاست کی نذر کر دیا ، گزشتہ 30 سال سے کوئی ڈیم ، بند اور ریزروائرز تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی ۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت پاکستان میں کل 68ڈیمز ہیں جبکہ بھارت میں ان کی تعداد 4192 ہے ۔پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 18 ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ بھارت میں یہ گنجائش 205 ملین ایکڑ فٹ ہے ۔ ہم نے ڈیموں کی تعمیر کو سیاست کی نذر کر دیا ۔ اگر ڈیم بنا لیے جاتے اور ضائع ہونے والا آدھا پانی بھی ذخیرہ کر لیا جاتا تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکتا تھا اور ہم اپنی زرعی ضروریات بھی پوری کر سکتے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکمران اور بیوروکریسی کے لوگ ان آفات میں مفادات حاصل کرتے ہیں،سیاستدان اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور کرپٹ مافیا اپنی جیبیں بھرتا ہے یہ سوچے بغیر کہ جس آفت نے ان غریبوں کی کٹیا ڈبو دی وہ ان کے محل بھی بہا کر لے جا سکتا ہے ۔
حفاظتی انتظامات نہ کرنے اور پھر مگرمچھ کے آنسو بہاکر فوٹو سیشن کروانے والا یہی طبقہ دراصل ان تباہ کاریوں کا ذمہ دار ہے ۔موجودہ حالات میں عوام پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بے بس و لاچار بہن بھائیوں کا سہارا بنیں،سیاسی ،مذہبی و مذہبی وابستطگیوں کو پس پشت ڈال کر صرف اللہ کی رضا کےلئے آگے بڑھیں۔ان سرمایہ داروں،وڈیروں،جاگیرداروں اور سیاستدانوں کو اپنی سیاست چمکانے دیں انہیں اپنی دنیا سیدھی کرنے دیں آپ اپنی آخرت سنوار لیں ،یہ اللہ کی جانب سے ہمارے لئے امتحان بھی ہے اور نیک اعمال کرنے کا موقع بھی۔ہمیں اس وقت شرمندہ نہیں ہونا جس وقت اللہ تبارک تعالیٰ ہم سے سوال کرے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کیوں نہیں کھلایا،میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی کیوں نہیں پلایا۔اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعے ہمیں آزما رہا ہے کہ کون اس کے احکامات کی پیروی کرتا ہے۔حکمرانوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیلاب کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کےلئے استعمال نہ کریں،ملک اور عوام محفوظ ہونگے تو سیاست ہوتی رہے گی،اس وقت صرف اور صرف متاثرین کی امدا د و بحالی پر توجہ دیں کیونکہ انہیں بھی روز قیامت اپنی رعایا کے حوالے سے جواب دہ ہونا ہے