تازہ ہوا کا جھونکا 


پانچ اگست: اس روز ہر ایک کی زبان پر تھا کہ آج سپریم کورٹ کے بنچ ون میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بنچ کیسز کی سماعت کرے گا ۔ کچھ عرصے سے مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ بن رہے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ ایسا ججزکے درمیان اختلاف کی وجہ سے تھا۔ بحرحال کچھ نہ کچھ تھا مگر اب نہیں رہا۔یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ججز کے آپس میں تعلقات ٹھیک نہیں ہیں ، ججز کے اختلاف اس وقت سامنے آئے جب جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں ججز کو سلیکٹ کرنا تھا ۔اختلاف کی وجہ سے ججز کی خالی آسامیاں پر نہیں ہو سکیں ۔ان حالات میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے ساتھ بنچ ون کا بننا سب کے لئے حیران کن اور نیک شگون تھا۔ یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پورے سپریم کورٹ میں پھیلی ۔ وکلا اس روز ایک دوسرے سے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے دکھائی دئے۔ راقم بھی ساتھی وکلا کے ساتھ بنچ ون میں خبر کی تصدیق کے لئے پہنچا ۔ اگر کہا جائے کہ اس روز بہت سارے وکلا یہی دیکھنے آئے تھے تو غلط نہ ہو گا ۔راقم جب داخل ہوا تو بنچ کو دیکھ کردل بہت خوش ہوا ۔ یہ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا ۔سماعت کے دوران کئی بار تینوں ججز کو خوشگوار موڈ میں ایک دوسرے سے مشورے کر تے بھی دیکھا گیا ۔پھر یہی بنچ پانچ دن تک ایک ساتھ کام کرتا رہا ۔ جس نے بھی بنچ کو دیکھا خوشگوار تبدیلی پر خوش ہوا ۔ اب امید ہو چلی ہے کہ ججز انصاف کی راہ میں حائل رکا وٹوں کے خاتمے کےلئے سرگرم رہیں گے ۔ اس وقت انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جلد انصاف کا نہ ہونا ہے ۔روز جتنے کیس ختم ہوتے ہیں اس سے کئی زیادہ دائر ہو جاتے ہیں ۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں خالی آسامیاں ہونے سے انصاف سست روی کا شکار ہے ۔انصاف جلدی نہ دینے کی بڑی وجہ ججوں کی عدالتوں میں کمی ہے ۔جس سے لوگوں کو انصاف ملنے میں تاخیر ہو رہی ہے ۔ سیاست دانوں کے کیس ہوں یا دوسرے کیس سب کو آئین اور قانون کے مطابق سن کر اگر ریلف بنتا ہے تو دیں اگر جیل جانا بنتا ہے تو جیل میں ڈالیں مگر جو بھی کریں سالوں، مہینوں میں نہیں ہفتوں میں ہونا چاہیے ۔ ایسا ہونے سے عوام سکھ کا سانس لیں گے ۔ شہری قانون کا احترام کرنے لگیں گے ۔اس وقت کیسوں کا جلد فیصلہ نہ ہونے سے شہری پریشان ہیں ۔ عام شہری ہو یا بڑی شخصیات قانون کا حترام کرتی دکھائی نہیں دے رہیں ۔وڈیروں سرمایہ داروں نے اپنی جیلیں اپنی عدالتیں بنا رکھی ہیں ۔حاصل پور کا دہشت ناک واقعہ ایک غریب رکشہ والے کے ساتھ پیش آیا ۔اس پر سو موٹو لینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ حالات کنٹرول میں نہیں رہیں گے، یہ بات لکھنے سے پہلے راقم نے بڑی شخصیت سے رابطہ کیامگر کوئی رسپانس نہیں آیا جب کہ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں میرے دروازے کھلے ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب آپ اس وقت بنچ بنانے میں خوشگوار تبدیلی لیکر آئے ہیں ۔اب آپ سے امیدیں وابستہ ہو چکی ہیں ۔انشاءاﷲ اس تبدیلی کے دورس نتائج دیکھنے کو ملیں گے ۔ ہمیں نہیں معلوم بار ایسوسی ایشن اور بار کونسلیں کا اس خوشگوار تبدیلی پر کیا ردعمل دیں گی لیکن تمام وکلا اور سماج نے خوشی کا اظہار کیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ قومی ترقی اور امن میں ہمیشہ عدلیہ کا اہم رول ہوا ہے اگر کیس قانون اور آئین کے مطابق سنیں گے اور جلد فیصلے دیں گے تو انصاف کا بول بالا ہو گا ۔ جو جج اپنے فیصلے دنیا میں قانون کے مطابق کرتے ہیں ۔ان کانام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔بابا کرمو کہتا ہے اگر ججز خدا سے اپنی لو لگا لیا کریں ، فیصلہ کرتے ہوئے کسی دباﺅ میں نہ آئیں ، صرف خدا سے ڈریں تو اچھے فیصلے آ سکتے ہیں ۔جوڈیشری کا نام روشن ہو سکتا ہے ۔ یہ جو بتایا جاتا ہے کہ جج نوکری پیشہ ہوتے ہیں ۔ نوکری پیشہ ہونا کوئی برائی نہیں برائی جرم اس وقت جنم لیتی ہے جب فیصلے قانون سے ہٹ کر کئے جائیں ۔اگر کوئی نوکری کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا تو ایسے شخص کو منصب چھوڑ کر گھر چلے جانا چاہیے ۔ اچھی تنخواہ کے ساتھ اچھی مراعات عزت مل رہی ہے تو ججز کو بھی چاہیے دوسروں کےلئے آسانیاں پیدا کریں ،کام کے ساتھ انصاف کریں۔ اس کے لئے اﷲ سے ڈرنا ہو گا ۔بابا کرمو کا یہ بھی کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب پر فیصلے لکھنے کے علاوہ بھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں جیسے ججوں کی خالی آسامیوں کوپر کرانا ، نئے ججز کی سلیکشن کرانا ۔ بابا کرمو کہتا ہے چیف جسٹس صاحب اپنے ساتھی ججز سے یہ گذارشات اگر کر دیں تو ہم پہت احسان مند اور شکر گزار ہوں گے کہ اپنی سروس کے دوران کیس سنتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا کریں ، وکلا کو بولنے دیا کریں ۔امید ہے چیف جسٹس صاحب دوسرے ججز کو بھی پابند کریں ۔ ججز کی سلیکشن کا معیار بہتر کریں ۔سلیکشن کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں ۔ ججز کی سلیکشن کا معیار بہتر کرنے کے لئے ایف پی ایس سی طرز جیسے امتحانات لئے جائیں ۔ ایجنسیوں سے ان کا کریکٹر، کلیئرنس سرٹیفیکیٹ لیا جائے۔ سب سے اہم ان کی تعلیمی ڈگریاں کی جانچ پڑتال ہے ۔تجربہ کار لا افسروں اور لوئر جوڈیشری سے بھی اچھے جج مل سکتے ہیں ۔کیسوں کے پہاڑ ختم کرنے کےلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدام اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ججزکی تعداد میں اضافہ کریں مگر خالی آسامیوں کو جلد پر کریں ۔امید ہے آپ کی موجودگی میں تازہ ہوا کے جھونکیں آتے رہیں گے ۔ملاقات کے دروازے کھلے رہیں گے انشاءاللہ ....جگر مراد آبادی کے شعر کے ساتھ اجازت
طول شب فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...