ڈاکٹر صفدر محمود…… دلوں میں بستے ہیں

علامہ عبدالستار عاصم
    ڈاکٹر صفدر محمود سچے کھرے پاکستانی، دانشور،ا یک عظیم ا±ستاد، محقق، بے باک تجزیہ نگار، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان اور ماہر تعلیم تھے۔ ان کی زندگی کے بے شمار رنگ تھے۔ صلہ رحمی سیکھنی ہو توکوئی ان سے سیکھے۔ سادگی، خلوص اور محبت کا پیکر خود نمائی اور غرور و تکبر سے کوسوں دور۔ کبھی کسی نیکی کا اظہار نہ کیا، وہ نیکی کے مواقع کی تلاش میں رہتے۔ ان کی زندگی کے آخری تین برس میں ا±ن کے بہت قریب رہا۔ وہ زندگی بھر ہزاروں بگے سہارا طلبا و طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے انتظامات کرتے رہے۔ جیلوں سے سیکڑوں قیدیوں کی رہائی کے معاملات نبھاتے رہے۔ انہیں رہائی دلوائی، بے شمار بیوگان کا سہارا بنے رہے، وہ ضرورت مندوں کا بینک تھے۔ قرآن پاک کے نسخے، احادیث اور سیرت کی کتب، تفاسیر اور دینی کتابیں اپنے پلے سے خرید کر تقسیم فرما دیتے تھے تاکہ علم کی روشنی پھیلتی رہے۔ 
    وہ ایک ہاتھ سے صدقہ خیرات کرتے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی۔ انہیں روحانیت اور تصوف سے خاص لگاو¿ تھا۔ وہ ایک بے چین روح تھے، انہیں پاکستان کی ہر لمحہ فکر رہتی، ہمیشہ بے چین رہتے۔ مجھ سے اکثر کہا کرتے: ”علامہ صاحب! خدا تک پہنچنے کا آسان ترین طریقہ مخلوق خدا کی خدمت ہے۔ اس سے آسان اور سہل کوئی ذریعہ نہیں۔ یہی شارٹ کٹ ہے۔ استغفار اور درود شریف کی اکثریت ہر مسئلے کا حل ہے۔اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کا اطمینان اور سکون ہے“۔
    ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک دن کہا: علامہ صاحب عمرہ کی سعادت اکٹھے حاصل کرتے ہیں، میں نے عرض کیا زہے نصیب، دو سعادتیں اکٹھی حاصل ہوجائیں گی۔ عمرہ بھی ادا ہوجائے گا اور آپ کی خدمت کا موقع بھی ملے گا۔ مسکرانے لگے پروگرام تقریباً بن چکا تھا کہ کورونا کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دنیا کو خوف و ہراس میں مبتلا کرکے نظامِ زندگی مفلوج کر دیا گیا۔ آمد و رفت کے ذرائع بند ہوگئے۔ عمرہ اور حج پر پابندی لگا دی گئی۔ لوگ گھروں میں قید ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا اللہ کو منظور ہوا تو ”کورونا“ کے بعد اکٹھے عمرہ کی سعات حاصل کریں گے۔ ایک دن ان کا صوتی پیغام موصول وہا کہ چند دن بیمار رہنے اور ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد گھر آگیا ہوں۔ میں عیادت کے لے گیا، کافی کمزور لگ رہے تھے لیکن مطمئن اور مسرور۔ کہنے لگے جلد لکھنے پڑھنے کے قابل ہوجاو¿ں گا۔ ان کے سعادت مند اور فرماں بردار بیٹوں اور اہل خانہ نے ان کی ہر طرح سے خدمت کی، خیال رکھا۔ سچی بات ہے جس طرح کے بیٹے اور بیٹیاں ڈاکٹر صاحب کی ہیں اگر گھر میں ایسی اولاد ہو تو پاکستان جنت کا نمونہ بن جائے۔ ان کے بچوں نے خدمت کا حق ادا کر دیا۔ ہر حوالے سے ا±ن کا خیال رکھا لیکن ڈاکٹر صاحب باوجود بہترین علاج اور دیکھ بھال کے صحت یاب نہ ہو پائے تو انہیں علاج کے لیے امریکہ پہنچایا گیا۔ وہاں وہ کئی ماہ تک بہترین ہسپتال اور اعلیٰ ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہے۔     
    فون پر ان سے اور ان کے بچوں سے مسلسل رابطہ رہا۔ تین برسوں میں ان کے جتنے صوتی پیغام موصول ہوئے اگر انہیں الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادوں خرم محمود اور عمر محمود نے دنیا کے بہترین ڈاکٹروں سے علاج کرایا۔ اعلیٰ طبی سہولتیں فراہم کیں لیکن جب دنیا سے دانہ پانی ا±ٹھ گیا ہو اور سانسوں کی گنتی مکمل ہوجائے تو پھر اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ 
    13 دسمبر 2021ئ کو ڈاکٹر صفدر محمود ہمیں ہمیشہ کے لیے چھور کر اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے پیش ہوگئے لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہی۔ اپنے افکارو نظریات، اپنے رفاہی کاموں اور علمی، ادبی شہ پاروں کی صورت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ ہر سچے اور محب وطن پاکستانی کے دل میں بستے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی یادوں کا سلسلہ بہت طویل اور خوبصورت ہے۔ ایک دن فرمانے لگے آج سے 45 سال پہلے ایک کتاب ”بانیانِ پاکستان“ لکھی تھی۔ آج پھر قوم کو اس کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا شائع ہوجائے گی۔ چند دنوں میں کتاب شائع ہوگئی۔ 
    پھر روحانیت اور تصوف کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت تحریروں پر مشتمل کتاب ”بصیرت“کے نام سے شائع کی، جو تصوف کے دل دادہ لوگوں کے لیے خاص تحفہ ہے۔ قائد اعظم، نظریہ پاکستان، علامہ اقبال اور قومی ترانے کے حوالے سے مخالفین کی پیدا کر دہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ ایک طرف، یہ سب سے بڑھ کر اور اہم ہے۔ 
    ”سچ تو یہ ہے“ میں ڈاکٹرصاحب مرحوم و مغفور سے ان تمام الزامات، غلط فہمیوں اور ابہام کا بڑی تحقیق کے بعد مدلل اور ٹھوس حوالوں سے رَد کر دیا ہے جو باطن لوگ بانیانِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے اکابرین پر لگاتے آئے تھے۔ یہ کتاب تقریباً پاکستان کی ہر لائبریری تک پہنچی اور پسند کی گئی۔ 
    ڈاکٹر صاحب کی وفات پر پاکستان کے تمام بڑے کالم نگاروں نے ان پر بھرپور کالم تحریر کیے۔ ان لکھنے والوں میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، مجیب الرحمن شامی، اوریا مقبول جان، ڈاکٹر حسین پراچہ، قیوم نظامی، سعید آسی، محمد فاروق عزمی، ارشاد احمد عارف، ریاض سید، عثمانہ کسانہ، عامر خاکوانی، سجاد میر جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ 
    ڈاکٹر صفدر محمود جب امریکہ میں زیرعلاج تھے تو اکثر مجھے کہتے بانی پاکستان اور اکابرین پاکستان کے بارے میں کچھ جاننا ہو تو ڈاکٹر زاہد منیر عامر سے رابطہ کریں۔ ڈاکٹر صاحب کی دوسری برسی پر حکومت سے مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود پاکستان کے واحد ماہرِ تعلیم تھے جنہیں UNO تک رسائی تھی، وہ وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔و ہ قائد اعظم، علامہ اقبال، ڈاکٹر عبدالقدیر کے بعد پاکستان کی بڑی شخصیت تھے۔ ان کے نام سے پاکستان میں ایک یونیورسٹی قائم ہونی چاہیے۔ یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا جائے اور 50 روپے کا ایک یادگاری سکہ بھی ڈاکٹر صفدر محمود کے نام سے جاری کیا جائے۔ 
    زندہ اور باضمیر اپنے قومی ہیرو اور رہنماو¿ں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی پاکستان، پاکستانی عوام، علم و ادب اور تحقیق کے شعبے میں خدمات پر بجا طور پر فخر ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ کریم جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند فرمائے، آمین!

ای پیپر دی نیشن