الیکشن کا کیا اچار ڈالنا ہے؟؟؟

ڈاکٹرعارفہ صبح خان                    12-09-2023

حیرت ہے کہ ن لیگ کو الیکشن کی نام پر سانپ کیوںسونگھا ہوا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی فوری الیکشن کی حق میں ہے۔ پی ٹی آئی بھی الیکشن پر زور دی رہے ہے۔ جماعت اسلامی بھی الیکشن کی حق میں ہے۔ ایم کیو ایم بھی الیکشن چاہتی ہے۔ پاکستان کی دس مقتدر پارٹیاں الیکشن کی فوری حامی ہیں۔ بس ن لیگ فوری الیکشن نہیں چاہ رہے اور شہباز شریف یہاں الیکشن نہ کرانی کی فضا تیار کر گئی ہیں۔ شہباز شریف کی بڑی ایجنڈوں میں اپنی کیسز ختم کرانا، مال پانی اکھٹا کرنا اور بڑی پیمانی پر پبلسٹی کرانا تھا۔ جانی سی چھ ماہ پہلی انہوں نی ٹی وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا، بینرز کی ذریعی اپنی اتنی تہشیری مہم چلائی کہ لوگوں نی دانتوں میں انگلیاں دی لیں۔ بد قسمتی سی شہباز شریف اور عمران خان کو فوٹو سیشن اور پبلسٹی کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ اس لیئی دونوں نی اپنی دُور حکومت میں سارا فوکس اپنی پروجیکشن پر رکھا۔ اگر تحقیق کریں تو پتہ چلی گا کہ اربوں بلکہ کھربوں روپیہ دونوں نی اپنی پبلسٹی پر لگایا۔ غیر ملکی فرمائشی دُوری کیی۔ اشتہاری مُہم چلائی۔ شہباز شریف نی جو اشتہار بازی کی۔ اُس پر اربوں روپیہ قومی خزانی سی لیکر اُجاڑا۔ یہے حال عمران خان کا تھا۔ اپنی اقتدار کو طُول دینی کی لیی ایک نی Adsulutely Not کہہ کر امریکہ کی ہر حکم پر لبیک کہے جبکہ دوسری نی ہر حکمران، سیاستدان اور مقتدر طا قتوں کو راضی رکھنی کی لیی سیلوٹ اور بٹر فیکڑی کا رات دن استعمال کیا۔ شہباز شریف کی ان پھرتیوں کی وجہ کیا تھی۔ اگر وہ نواز شریف کو اپنا لیڈر اور مستقبل کا وزیر اعظم دیکھنا چا ہتی ہیں توپھر اپنی اتنی زیادہ پروجیکشن کی کیا ضرورت تھی۔ اتنی پبلسٹی تو امیدوار دوبارہ وزیر اعظم بننی کی خاطر کرتا ہے۔ شہباز شریف کی اندر یہ چل رہا ہے کہ لوگ کہیں گی کہ شہباز شریف کو دوبارہ وزیر اعظم بناﺅ کیونکہ وہ نواز شریف سی زیادہ فعال ہے۔ بہت بڑی بھول اور بہت بڑی خوش فہمی ہے کیونکہ آپ نی اسحاق ڈار کی ساتھ مل کر جس طرح قوم کو الّو بنایا ہے اورجس طرح آئی ایم ایف سی ساری قرضی کھا کر پوری ملک کو گروی رکھ دیا اور ساری قوم کو آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا۔ جو آدمی اپنی سگی بھائی کا نہیں ، وہ قوم کا کیا وفادار ہو گا۔ بھائی کو جپھیاں ڈالکر خوب بیوقوف بنایا۔ نواز شریف کی مجبوری بھی تھی اور چا پلوسی ، خوشامد، مکھن بازی کی اثرات بھی لیکن نواز شریف کو بھی سمجھ ہے کہ اگر شہباز شریف کو موقع ملی تو وہ نواز شریف کی جگہ دوبارہ وزیر اعظم بننی کی کوشش کری گا۔ لیکن شہباز شریف کو یہ نہیں پتہ کہ وہ عوام کو ٹیکسوں، قرضوں، مہنگائی اور غلامی کی جس دلدل میں دکھیل کر گئی ہیں۔ اُس کی بعد پاکستان میں شہباز شریف کی لیی اب سیاست کی دروازی بند ہو گئی ہیں۔ وہ زندگی بھر وزیر اعظم کو توکیا وزیر اعلیٰ نہیںبن سکتی۔ نوازشریف کا پاکستان آنا اور وزیر اعظم بننا مشکوک ہے۔ عمران خان کا سیاسی کیر ئیر ختم ہونی کو ہو۔ وہ ملک نہیں چلا سکتی، وہ صرف شوکت خانم یا سوشل میڈیا چلا سکتی ہیں۔ را ت دن اپنی ماضی کی تصویریںاور وویڈیوز چلوا سکتی ہیں۔ ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی،جی یو آئی، استحکام پارٹی، ای این پی وغیرہ میں لیڈر شپ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ رہ گئی پیپلز پارٹی تو اُس میں چند بہتر نام ہیں۔ بلاول بھٹو میں سیاسی بصیرت ہے مگر وہاں بھی کرپشن کی میگا کہانیاں ہیں۔ الیکشن کمیشن بار بار اربوں روپیہ مانگ رہا ہے جس میں سی کچھ ارب الیکشن کمیشن کی کھاتی میں جاکر غائب ہو گئی ہیں۔ صورت یہ کہ موجودہ نگران حکومت سی بھی توقعات رکھنا خطر ناک ہے کیونکہ انکی نیتیں اور ارادی نیک نہیں ہیں۔ نگران حکومت کی آنی کی بعد عوام کو ریلیف کی جگہ بی پناہ تکلیف ملی ہے۔ ابھی تک اشرافیہ کی عیاشیوںکا کوئی علاج نہیں کیا گیا۔ عوام کو اسقدر زیادہ زندہ درگور کر دیا گیا ہے کہ نگران حکومت میںابتک سو سی زیادہ افراد خو د کشیاں کر چکی ہیں۔عوام کیا الیکشن کا اچا ر ڈا لیں گی۔ الیکشن کی بعد وہے پاپی ، آزمائی ہوئی لٹیری اقتدار میں آجائیں گی۔ مقتدر حلقوں استیبلشمنٹ عدلیہ اور انتظامیہ کو چاہےی کہ نگران حکومت کی بجائی ایک قومی حکومت تین سال کی لیی تشکیل دی دیں جس میںبیس وزراءسی زیادہ ایک بھی وزیر نہ ہو۔ کرپشن کی سزا چین کی طرح پھانسی مقرر کی جائی۔ اور تما م سابقہ سیاستدانوں کو بغیر کسی تخصیص کی احتساب کی دائرہ میں لایا جائی۔ حد ہو گئی ہے کہ پاکستان کو ڈیڑھ سال کی دوران کھربوں ڈالرزکی امدادیں اور آمدنی ہوئی جبکہ عوام پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ ہوا۔ بار بار سوال کیا ہے کہ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، امریکہ، چین اور دیگر ممالک سی موصول ہونی والی اربوںڈالرز کس نی کھائی ہیں؟ آئی ایم ایف سی ملنی والا اربوں ڈا لرز کا قرضہ کو ن خبیث بد روح کھا گئی؟سابقہ چیر مین نیب جو ہر دوسری دن شہ سرخیوں لگواتی تھی کہ اتنی ارب کی ریکوری ہوئی تو کیا وہ ریکور کیی جانی والی کھربوں روپیہ کس ڈائن کی پیٹ میں گئی ہیں؟موٹر ویز اور پٹرول لیوی، بجلی ٹیکسز کی مد میں جو اربوں روپیہ ماہانہ وصول کرتی ہیں، وہ کس چڑیل نی ہڑپ کئیی ہیں؟ اور یہ جو مختلف چور لٹیروں سی ہر ہفتی پندہ کروڑ، پچیس کروڑ اور پچاس کروڑ اور ارب روپیہ ریکور کرائی جارہے ہیں،وہ کہاں جا رہے ہیں؟ ہر دوسری تیسری دن کروڑوں روپی کی ڈرگس پکڑی جاتی ہے، اسگمل شدہ مال ضبط کیا جاتا ہے، وہ کس منحوس کی پاس جاتا ہے؟ یہ جوامپورٹ ایکسپورٹ کی ذریعی عوام پر مختلف طریقوں سی مہنگا ئی کا عذاب مسلط کر کی اربوں کھربوں روپیہ آتا ہے، وہ کس کی جیبوں میں جاتا ہے؟ جو دوسری قسم قسم کی ٹیکسوں کی ذریعی ہر ماہ کھربوں روپیہ اکھٹا کیا جاتا ہے، وہ آخر کہا خرچ کیا جاتا ہے؟ پاکستان میں کو ئی ترقیاتی یا عوامی بہبود کا کام نہیں ہو رہا ۔ ہسپتالوں میں مریض رُل رہے ہیں اور گھر کا سامان بیچ کر جان بچانی والی مہنگی ادویات خرید رہے ہیں۔ لوگ اپنی موٹر سائیکل، ای سی، گھریلو مشینری ، گُردی اور بچی تک بیچنی پر مجبور ہو گئی ہیں جنکی پاس یہ بھی نہیں۔ وہ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 1787ءوالی فرانس جیسی حالات ہو گئی ہیں۔ پاکستان کی دہلیز پر اس وقت فرانس انقلاب دستک دی رہا ہے۔ بہت جلد پاکستان میں تنگ آمد بجنگ آمد کی تحت کمزور ناتواں اور مجبور لوگ اشرافیہ کو ایوان صدر، وزیر اعظم ہاﺅس سب جگہوں سی نکال کر باہر پھینک دیں گی۔ ان حالات میں الیکشن کی نہیں بلکہ ریلیف کی ضرورت ہے۔ جنرل عاصم منیر کو چاہےی کہ قوم کو بھنور سی نکالیں اور پاکستانی سیاستدانوں کی چُنگل میں نہ آئیں بلکہ اس مجبور،مقہور، مظلوم قوم کو عذاب سی نکالیں۔ اس قوم کو الیکشن یا بھاشن کی ضرورت نہیں، اسی راشن پانی کی ضرورت ہے۔ ایک مسیحا کی ضرورت ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...