سیاست کرنی ہے تو لیڈر بنو

کالم:لفظوں کا پیرہن 
تحریر:غلام شبیر عاصم 
بھوک کی شدت سے پیٹ کو م?سلتے اور آنتوں میں کھوکھلی سی امید کے خیالی ل±قمے اتارتے ہوئے لوگوں کے غول کو اگر آواز دی جائے کہ آجاو روٹی کھا لو،یہ س±نتے ہی سب لوگوں کے پیٹ میں شدتِ بھوک کی آتش گلزار ہونے لگےگی۔حلقوم میں شدتِ بھوک و پیاس کا احساس کم ہونے لگے گا۔اور اس افراتفری کے لمحہ میں کوئی بھی مذہبی،م±لکی،لسانی اور گروہی فرق اور تعصب نظر نہیں آئے گا۔سب روٹی کی طرف اٹھ دوڑیں گے۔کیونکہ بھوک لگنا ایک فطری عمل ہے،اور بھوک کا کوئی مذہب،فرقہ اور گروہ نہیں ہوتا۔ب±ھوک مٹانے کی تگ و دو ایسا کشٹ ہے جس میں"محمود و ایاز"برابر کھڑے نظر آتے ہیں۔مگر اپنی جگہ پر یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر ب±ھوک طوالت پکڑ لے تو یہاں ہی سے نفرتیں،نحوستیں، دوریاں،تفرقات، علاقائی اور گروہی تعصب جنم لیتے ہیں۔اور اسی تعصب سے غداری اور ملک و قوم سے دشمنی بھی جنم لیتی ہے۔مختصر یہ کہ کسی قوم میں بھوک کاشت کرکے باآسانی اس کے نظریات اور"قومیت" پر قابض ہوا جاسکتا ہے۔بھوک جیتے جی ماردینے والی ایمان شکن کیفیت کا نام ہے۔قیامِ پاکستان سے پہلے نظریاتی تعصب کی چکی میں مخالفوں کے ہاتھوں پِسنے والے مسلمان بھوک کی شدت سے نڈھال لوگوں کی طرح آزادی کو ترس گئے تھے۔ا±س وقت سب کا مسئلہ اور ضرورت ایک ہی تھی۔تحریک پاکستان کے قائدین باالخصوص قائداعظم محمد علی جناح باخوبی بھانپ گئے تھے کہ ایک الگ مملکت کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔قائداعظم محمد علی جناح کی ایک آواز پر آزادی کے تمام بھوکے ایک سائبان تلے متحد ہوگئے۔تحریک پاکستان کی زیرک اور دوراندیش قیادت نے اپنی حکمتِ عملی اور عوام کے اندر پیدا کئے جانے والے جوش و جنوں کے ب?ل پر ا?ن گِنت قربانیوں اور اذیتوں کے بعد ایک الگ ملک پاکستان حاصل کرلیا۔یہ بھی ایک قابل یقین حقیقت ہے کہ جب خالی پیٹ میں خوراک جاکر ب±ھوک کی تلخی کو ختم کردیتی ہے،تو پھر انسان کی اپنی اپنی جبلّتیں کھل کر سامنے آنے لگتی ہیں۔جیسے کسی شاعر نے کہا تھا کہ

*رج کھان دِیاں ساریاں مستیاں نیں

آٹا لگے تے ط?بلے پٹاخدے نیں

جب خالی پیٹ میں نوالے اتر چکے ہوتے ہیں،لاغری اور کمزوری میں جان پڑ جاتی ہے تو پھر بے ہوش اور کراہتے سسکتے وجود بھی بعض اوقات اڑدھا کی فطرت پر اتر آتے ہیں۔پاکستان بنتے ہی کئی منافقوں کی سیاہ کاریاں سامنے آنے لگی تھیں۔مملکت پاکستان کے تجسیم پاتے ہی آزادی کے کئی دشمن بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔اور آج بھی کئی حربوں طریقوں سے پاکستان کی مخالفت کرکے اپنی اس منافقانہ فطرت ثانیہ کو تسکین پہنچا رہے ہیں،پاکستان کو یک تجسیم کے بجائے"تقسیم"کے چیتھڑوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اور پاکستان کے ساتھ یہ ڈھکی چھپی منافقانہ دشمنی نسل در نسل چلتی آئی ہے۔مختصر یہ کہ ملک پاکستان قیام کے وقت ہی مسائل اور تکالیف میں گِھر گیا تھا۔اور یہ مسائل برسوں کے بعد اب بھی پاکستان کی رگوں میں دائمی مرض کی طرح زندہ و جاوید ہیں۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی مملکتِ پاکستان کی حیثیت و کیفیت نومولود یتیم کی سی ہوگئی تھی۔بانی پاکستان کی موت دراصل ایک نظریہ اور استحکام کی موت ثابت ہوئی جس کی سزا قوم آج بھی برداشت کررہی ہے۔اس وقت سے آج تک پاکستان کی حالت عیاشوں میں گِھری ہوئی ایک طوائف جیسی ہوگئی ہے۔یقین کریں کہ پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں سچ لکھتے ہوئے ڈر لگتاہے کہ کہیں ہماری نئی نسل نفسیاتی طور پر ذہنی امراض کا شکار نہ ہوجائے۔آج کا پاکستان کئی داخلی اور خارجی مسائل سے دوچار ہے۔دکھ کی بات ہے کہ اس کے مسائل اور روگ کی طرف کسی کا دھیان ہے ہی نہیں۔ملک کے سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنے اپنے کھیل میں ا±لجھ کر ملک کو مزید اندرونی مسائل سے دوچار کررہے ہیں۔ہر کوئی اپنا اپنا پانسا پھینکنے اور ترپ کے پتے کھیلنے میں منہمک نظر آتا ہے۔قوم قومیت سے نکل کر"گروہیت" اور عصبیت کی د?لدل میں پھنس چکی ہے۔ہر کسی کا اپنا اپنا منشور،نظریہ اور ایجنڈا ہے،جو ملک میں نفسا نفسی اور افراتفری کو فروغ دے رہا ہے۔جب تک سب کا نظریہ اور ایجنڈا ملک کی سالمیت کا عکاس نہیں ہوگا یہاں "سرغنے" تو پیدا ہوں گے لیڈر پیدا نہیں ہوسکیں گے۔ایک آواز اور ایک کاز پر بننے والا پاکستان اب کئی طرح کے تعصبات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ستم ظریفی دیکھئیے کہ"نیا پاکستان"کا نعرہ بھی ملکی سیاست کا حصہ بن گیا ہے،جو اس بات کی واضح نشانی ہے کہ پاکستان واقعی بڑی حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے کہ اب نظریاتی طور پر نئے پاکستان کی ضرورت درپیش ہے۔خدارا اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے نکلیں اور ملک کے کروڑوں عوام کو ایک ہی مسجد میں متحد رہنے کی ترغیب دیں۔اپنی اپنی بےوقت کی اذانیں اور سیاسی دکانیں بند کریں۔ملک وقوم کی بھلائی کی طرف قدم اٹھائیں۔آنے والی نسلوں کی رگوں میں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت،تعصب اور گروہ پرستی کا زہر نہ بھریں اپنے مثالی کردار کی بدولت تاریخ کے دامن میں آنے والی نسلوں کے لئے اچھے حوالے چھوڑ کر جائیں،تاکہ تاریخ آپ کے جانے کے بعد آپ کے ہجر میں مرثیے اور نوحے پڑھے اور آئیندہ نسلوں کو تمہاری وطن پرستی اور زندہ ضمیری کے قصے سنا سکے۔نہ کہ آپ کے ظالمانہ و منافقانہ رویوں پر ہمیشہ ماتم کناں رہے۔خدا را ہوش کریں،پاکستان کو نہ بدلیں سیاست کے پتے کھیلنے اور مرضی کے گنے پیلنے سے بہتر ہے کہ ترقی یافتہ قوموں سے سبق سیکھ کر اپنے رویے اور چلن ٹھیک کریں اِسی پاکستان ہی سے شمس و قمر کو شرمندہ کردینے والی کِرنیں پھوٹیں گی۔مگر یہاں پر تو سوائے ایک دوسرے کے خلاف ایشوز اٹھانے اور دھاک بٹھانے سے ہی کسی کو فرصت نہیں۔لیڈرو آپ اس نکھٹو باپ کی طرح ہوچکے ہو جس کے بیوی بچے ر±ل جاتے ہیں مگر صاحبِ خانہ عیاشیوں بدمعاشیوں کے نشہ میں د±ھت رہتا یے۔عوام کا اعتبار آپ سے اٹھ چکا ہے اسے بحال کریں۔اپنے کرت±وت ٹھیک کرلیں تو عوام آج بھی آپ کے ایک اشارے پر گھاس کھاکر زندہ رہ لیں گے،اور ملک سونے کی چڑیا بن جائے گا۔مگر آپ اپنا"ا±ل±و پ?ن"تو چھوڑیں۔اپنی عیاشیوں مکاریوں کی خاطر ملک کو کس خطرناک نہج پر لے آئے ہیں۔سیاست کرنی ہے تو لیڈر بنو،خون خوار درندے،لٹیرے اور فصلی بٹیرے نہ بنو۔

ای پیپر دی نیشن