کنکریاں۔ کاشف مرزا
پاکستان میں آئین 14 اگست 1973 کو متعارف کرایا گیااور اسکے بعد کئی مواقع پر اس میں ترمیم کی گئی۔ معاشی ترقی کا جمہوریت وسیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہے۔ بدقسمتی سے، ایک غیر فعال جمہوریت اور مروجہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے، پاکستان کو آج متعدد اقتصادی اور سلامتی کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے اورمہنگائی کو کچل کرحقیقی آمدنی تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ جن بہت سے ممالک نے قابل قدر اصلاحات کے ذریعے پائیدار جامع اقتصادی ترقی اور سماجی ترقی حاصل کی، ان میں جنوبی کوریا،انڈیا،انڈونیشیا،ترکی،سنگاپور،بنگلہ دیش اورکئی لاطینی امریکی ممالک اسکی مثالیں ہیں۔ ایک متحرک جمہوریت جامع معاشی ترقی اور سماجی ترقی کی شرط ہے۔ پاکستان 75سالوں میں تقریباً 37سال بے آئین رہا ہے، جبکہ 1973کے آئین کی گولڈن جوبلی کے پچاس سال میں سے بھی20سال آئین معطل رہاہے۔ بدنصیبی کہ 1956، 1962 اور 1973کے آئین کے ابتدائیہ میں قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947کی آئین ساز اسمبلی کی تقریر جس میں انہوں نے تصور پاکستان بیان کیا، کوکبھی کوئی مقام نہ ملا۔جس ملک کا وجود ہی 1946کےآئین کے تحت ہوا ہو وہاں1973کے آئین بنانے تک دوآئین اوردو مارشل لائ آچکے تھےجبکہ آدھا ملک سلور جوبلی سے قبل 1971 میں الگ وطن بن چکا تھا۔ جمہوریت کا پہلا دور 1947 تا1958 تک 11سال پر محیط تھاجسے میجر جنرل اسکندر مرزا اورجنرل ایوب خان نے ختم کیا،دوسرا جمہوری دور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 5 سال چلا جسے سیاستدانوں کی آپسی لڑائی واقتدار کی ھوس کے سبب جنرل ضیائ الحق نے مزید 11 سال معطل کیااورپھر 1988سے 1999تک11سال غیرمستحکم جمہوریت رہی بعد ازاں جنرل مشرف نے 1999 سے 2008 تک براجمان رہے۔ تمام فوجی حکمرانوں نے کوشش کی کہ صدارتی ویٹو کا استعمال اپنے پاس رکھیں اوروزیراعظم کے ساتھ پارلیمان کو جب چاہیں فارغ کردیں، اور کینگز پارٹی میں شامل روایتی اور ماروثی سیاستدانوں نے ہمیشہ انکا ساتھ دیا۔ وہ چاہیے1956 یا 1962 کےصدارتی آئین میں تمام اختیارات جنرل ایوب خان کو دینا ہو، یاجنرل یحییٰ خان کا قانونی ڈھانچے کا حکم نامہ (LFO) یاجنرل ضیائ الحق کی آٹھویں اور جنرل مشرف کی ستر?ویں ترمیم کامسلط کیا جاناتھا۔آج 1973 کے آئین کی اصل شکل بگڑچکی ہے، تاحال28 ترامیم ہوچکی ہیں۔بدقسمتی اس آئین کی پہلی خلاف ورزی بھی اسکے خالق خود بھٹو نے کی ،جب24گھنٹے کےاندرملک میں ایمرجنسی لگاکر بنیادی حقوق سلب کردیئے گئے، پھراسی دور میں 7دیگر ترامیم بھی ہوئیں جو بھٹو کی غلطی اوراقتدار کی ھوس تھی، کیونکہ اس میں سے ایک ترمیم جسکا تعلق عدلیہ سے تھا وہ خود انکے خلاف ثابت ہوئی۔ اسطرح اگر 1973 سے 1999 تک آئین کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ک±ل13 ترامیم منظور اور3ترامیم منظور نہ ہوسکیں۔بے نظیر بھٹو اپنی دونوں حکومتوں میں کوئی آئینی ترمیم منظور نہ کرواسکیں، جبکہ نوازشریف نے اپنے 2 ادوار میں 12ویں،13ویں،14ویں اور16ویں ترمیم منظور کرائیں۔ آئین کی8ویں ترمیم سب سے خطرناک ثابت ہوئی جس نے جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایاجبکہ آئین کے آرٹیکل 17 میں جو اہم تبدیلیاں کی گئی تھیں انکے ذریعے اجتماع کی آزادی کو محدود اورنئی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اسی آئینی ترمیم کی بنیاد پر پولٹیکل پارٹیز ایکٹ مجریہ 1962 پر بھی نظر ثانی کی گئی۔ تلخ حقیقت ہے کہ بھٹو سمیت تمام نے خود توآئین کو جس حد تک ممکن تھامسخ کیااور آئین میں جوابتدائی ترامیم کی گئی ان میں سے کوئی ایک ترمیم بھی عوام کے جمہوری حقوق کو یقینی بنانے کیلیے نہ تھی،بلکہ اپنے اختیارات بڑھانا، عدالتی اختیارات کو کم یامحدودکرنا اور وفاقی حکومت کیخلاف کسی بھی امکانی مخالفت کو تباہ کرنا تھا۔2010 میں پارلیمان میں18ویں ترمیم منظور کرا کے صدر کے یکطرفہ اختیارات ختم کردیےاورملک دوبارہ صدارتی نظام سےپارلیمانی جمہوریت کے راستے پر چل پڑا۔اس ترمیم کی تیاری میں آئین کی102 دفعات میں ردوبدل کیا۔ یہ ترم?م آئ?ن کی 50سالہ تاریخ میں سب سے مثبت ترمیم ہے جسے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ہمارا آئین بنیادی طور تین رخی طاقت (Trichotomy of powers) کے فلسفے یعنی مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ اپناعلیحدہ وجود رکھتی ہیں اورانکے دائرہ ہائے کاردستور میں واضح کردیے گئے ہیں۔چونکہ ملک نے پارلیمانی طرز حکومت کواختیار کیاہے لہٰذا مقننہ اورانتظامیہ کےدرمیان ایک تعلق اوررشتہ موجود رہتا ہے مگر ایک دوسرے کے دائرہ کار میں غیر ضروری طور پر مداخلت کااختیار نہیں دیتا۔آئین کے50سالوں موجودہ آئینی ومعاشی بحران اس بات کا متقاضی ہے کہ تبدیل شدہ صورتحال وزمینی حقائق کے مطابق آئین پرنظرثانی اور دوبارہ لکھنے کیضرورت ہے۔ ایک ایسا آئین جس میں بہت خامیاں ہیں جنکافائدہ اٹھا کر اسکی تشریح کی جا سکتی ہے، اسے دوبارہ بنانے کیضرورت ہے۔ پاکستان کے آئین کو پاکستان کے مفاد کیلیے دوبارہ لکھا جانا چاہیے اورترجیحی طور پرنظام حکومت کی تعریف سیاست یا انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ میرٹ کریسی کے عمل سے کی جانی چاہیے۔ تاریخی لحاظ سے، ابتدائی آئین، جیسے ریاستہائے متحدہ امریکہ کا آئین، کافی سادہ دستاویزات ہیں۔ انگلینڈ کے پاس ایسا تحریری آئین نہیں ہے، باوجوداسکے قوانین وگورننس میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے آئین دنیا میں سب سے طویل تحریری ہیں لیکن یہ آئینی رکاوٹوں کا علاج نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں اسکے ترقی پذیر آئینی اصولوں پر توجہ مرکوز کرنے کیضرورت ہے جو بالآخر سیاست کو دیکھنے اور اسکی تشکیل کے انداز کا ایک کام ہیں۔ اگر آئین کو رہنما اصول فراہم کرنے ہیں تو انہیں ایسی زبان میں وضع کیا جانا چاہیے جو انہیں قابل عمل بنائے۔ 2022 میں ڈیموکریسی انڈیکس کی عالمی درجہ بندی نے پاکستان کو 185 آزاد ممالک میں 115 ویں نمبر پر پہنچا دیا، اور اب بھی چار قسم کی حکومتوں مکمل جمہوریت؛ ناقص جمہوریت؛ ہائبرڈ حکومت یا آمرانہ حکومتمیں سے ایک ہائبرڈ رجیم سمجھا جاتا ہے۔ یہ ملک دنیا کا پانچوں بڑی آبادی والا ملک بن گیا ہے جسکا تخمینہ 240 ملین آبادی ہے اور یہ 2050 تک 403 ملین تک پہنچ سکتا ہے،صحت کے معیار اوررسائی کے لحاظ سے دنیا کے 122اورتعلیم میں 136واں نمبرہے۔پاکستان کی30فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے،ڈالر ریٹ 328 اور مہنگائی انڈکس 40 فیصد کراس کرچکاہے،اوسط انسانی ترقی کا اشاریہ اور جی ڈی پی دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے،جسکی بڑی وجہ پاکستان کا کمزورسیاسی نظام ہے۔
پاکستان کو صدارتی نظام کے نئے آئین کیضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ریاستوں کی اکثریت ریاستہائے متحدہ امریکہ، روس،چین، فرانس وغیرہ اپنی ریاستوں پر صدارتی طرز حکومت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ پارلیمانی نظام زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک میں استعمال ہوتا ہے۔ آٹھویں ترمیم نے پاکستان کو ایک نیم صدارتی جمہوریہ میں تبدیل کر دیا اور 1985 سے 2010 کے درمیانی عرصے میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان ایگزیکٹو پاور کا اشتراک کیا گیا۔ 2010 میں 18ویں ترمیم نے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو بحال کیا، اور صدارت کو ایک رسمی حیثیت میں کم کر دیا۔ 10 جولائی 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھ سے لکھے گئے نوٹ میں قائداعظم نے لکھا کہ”صدارتی طرزحکومت پاکستان کیلیے زیادہ موزوں ہے،“۔ لیکن بدقسمتی کہ ہم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے دیرپا سپیل سے باہر نہیں آ سکے جو 1956 میں پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل اور نفاذ تک پاکستان کا آئین ہی رہا۔ 1973 کا آئین، حالانکہ اس نے خود کو ایک وفاقی ریاست قرار دیا مرکز میں پارلیمانی حکومت محدود انتخاب کا نتیجہ تھی۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان نے مختلف نظام حکومتوں کا تجربہ کیا ہے۔ جمہوریت سے فوجی آمریت تک،اور بھٹوکے ذریعے سویلین مارشل لائ تک گورننس کو ایک بنیادی مسئلہ سمجھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مولوی تمیزالدین خان کیس کے بعد 28مئی 1955کو آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی وہ بھی گورنر جنرل کے آڈر نمبر 1955, 12کےتحت وجود میں آئی۔اسیطرح 1973 کے آئین کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ملک میں ایمرجنسی لگا دی گئی اورنظریہ ضرورت کی آڑ میں جنکو آئین کےآرٹیکل 6کےتحت سزا دینی چاہئے تھی انکو آئین میں ترامیم کا اختیار دے دیا۔آرٹیکل 6صرف آئین کو توڑنے یا معطل کرنے والوں پر لاگونہیں ہوتابلکہ اس عمل میں اعانت کرنے والوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔اگر 18ویں ترمیم کے وقت اسکا بھی اضافہ کردیا جاتا کہ آئین کومعطل یا توڑنے کےعمل کو درست قرار دینے والے سیاستدان، سیاسی پارٹیز اورججز بھی اس زمرے میں آئیں گے تو شاید ہم اس مرمت شدہ آئین کو کچھ تحفظ دے پاتے۔آئین کو سب سے زیادہ مسخ جاگیردارانہ نظام کے خود روایتی وماروثی سیاستدانوں نے کیا،اپنے اقتدارو نسلوں کومضبوط کرنے کیلیے آئین میں ذاتی مقاصد کی ترامیم کرا کرکیا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان 75 سالوں میں تقریباً 37 سال بے آئین رہا ہے، جبکہ1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی کے 50سال میں سے بھی20 سال آئین معطل رہا ہے۔جب تک جاگیردارانہ نظام کے روایتی اور ماروثی سیاستدانوں اورسیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہ آئے گی تب تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہےگا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کے پیش نظرصدارتی نظام جو دراصل ایک جمہوری نظام ہےلیکن ہمارے ملک کی کرپٹ سیاسی اشرافیہ کے مفادات کیلیےخطرہ ہے۔ صدارتی نظام کو آمریت سے تشبیہ دینا غلط ہے کیونکہ یہ بالکل مختلف ہیں۔صدارتی نظام میں صدرکاانتخاب براہ راست لوگوں کے ذریعے یا انتخابی کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے ایگزیکٹو طاقت اسکے دفتر میں مرکوز ہوتی ہے۔ صدر آئین اور قانون سے اپنا اختیار حاصل کرتا ہے۔ صدر کا انتخاب ایک مقررہ مدت کیلیے ہوتا ہے لیکن آمریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ امریکی آئین کو صدارتی نظام حکومت کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ اس نے پچھلی دو صدیوں سے زیادہ عرصے میں اچھی طرح سے کام کیا اوراسے20ویں صدی میں امریکہ کو ایک مضبوط ملک اور بالآخر عالمی طاقت بنانے کی ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ 19ویں اور20ویں صدی میں امریکہ کے زیر اثر آنے والے82ممالک میں امریکی آئینی ماڈل کی پیروی کی گئی ہے۔ امریکی آئین چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے ساتھ اختیارات کی علیحدگی کے نظریے کے گرد گھومتا ہے۔ امریکی آئین حکومتی طاقت کو قانون سازی، ایگزیکٹو اور عدالتی زمروں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدارتی طرزِ حکومت کے تحت صدر ذاتی خواہش کے مطابق کام نہیں کر سکتا۔ اسکے اعمال صدارت کے ماڈل کے مطابق پارلیمنٹ یا عدلیہ کے ذریعہ جانچ پڑتال کے تابع ہیں۔ USA میں کانگریس کوسزا،رشوت، یا دیگر اعلیٰ جرائم اور بداعمالیوں کی بنیاد پر صدر کا مواخذہ کرنے کا اختیار ہے۔ یہ صدر کے ذریعے طے شدہ معاہدے کی توثیق کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ صدارتی کارروائی کو آئین کےمنافی قرار دے سکتی ہے اگر یہ آئین کے خلاف ہو۔چونکہ صدارتی نظام میں صدر کا انتخاب عوام کے ذریعے براہ راست کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے طاقت اسکے دفتر میں مرتکز ہوتی ہے، یوں اپوزیشن کے ہاتھوں بے دخل ہونے کے خوف سے محفوظ رکھتا ہے جسکی وجہ سے عوامی ترقی اور خدمات کی فراہمی پر توجہ دی جاتی ہے۔خوف کی یہ کمی انتظامیہ کو غیر سیاسی کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے،باصلاحیت اور ہنر مند افرادی قوت کی موثر خدمات سے ترقی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں مقننہ وحکومت کے درمیان اختیارات کی کوئی علیحدگی نہیں ہوتی۔ پولیٹیکل ایگزیکٹو، جو قانون سازوں سے منتخب کیا جاتا ہے، حقیقی ایگزیکٹو پاور رکھتا ہے، اور اسیلیے قانون سازی میں ہیرا پھیری کرتا ہے۔ اسلیے قانون لامحالہ پارلیمنٹ کے بجائے حکومت کے ذریعے بنتی ہے۔ یہ تضاد جمہوریت کو منتخب آمریت میں بدل دیتا ہے۔لہذا پاکستان کے سیاسی حقائق کے پیش نظر صدارتی نظام ہی بہتر نتائج دے سکتا ہے۔ وزرائ اپنی توانائیاں مکمل طور پر ملکی ترقی کیلیے وقف کر دیتے ہیں اور پارٹی ڈسپلن کو برقرار رکھا جاتا ہے، جس میں علیحدگی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اسطرح وہ آئینی ڈھانچے اور قانون کی حکمرانی کومضبوط بنانے پر توجہ دینے کے ساتھ قانون سازی پر پوری توجہ دیتے ہیں۔
پاکستان کے آئین 1973 کے آرٹیکل 48 کے تحت بھی ریفرنڈم کرایا جا سکتاہے۔ اگرچہ آئین میں ترمیم کا عمل آرٹیکل 238 اور 239 میں بیان کیا گیا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں صدارتی نظام کیلیے بڑی اصلاحات کیضرورت ہے۔ صدر اعلیٰ اختیارات کے حامل واحد آدمی ہونے چاہئیں اور انہیں صرف سینیٹ کے ساتھ اختیارات کا اشتراک کرنا چاہیے۔ جبکہ سینیٹ کے نمائندوں کا انتخاب عام انتخابات سے ہونا چاہیے۔ ہر ریاست میں مساوی نشستیں ہونی چاہئیں اسلیے نمائندگی برابری پر ہونی چاہیے۔ جب تمام سینیٹرز منتخب ہو چکے ہوں گے تو پھرعام انتخابات ہونے چاہئیں جسکے ذریعے پاکستانی قوم کیلیے صدر کا انتخاب کیا جائے۔ پاکستان کو مزید ترقی یافتہ اور پائیدار بنانے کیلیے ان اصلاحات پر عمل کیا جانا چاہیے۔ وقت بدل گیا ہے، پاکستان کا سیاسی نظام نہ صرف بوسیدہ ہے بلکہ گورننس کے حوالے سے بھی خراب ہے۔ پاکستان کا مستقبل تعصب کی سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے۔ ایک مستحکم نمائندہ نظام کیلیے ہماری جستجو سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہے جو جمہوریت اور گڈ گورننس کو نچلی سطح تک پہنچائے۔ پاکستان کو آج جس چیز کیضرورت ہے وہ موثر گورننس ہے، ایک کم بوجھ والا نظام جو شہریوں کیلیے قابل رسائی ہو، بہتر اور شفاف ادارے ہوں تاکہ لوگ ان پر بھروسہ کر سکیں صرف حکومتوں کو تبدیل کرنے اوراداروں کو ٹھیک کرنے سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوگا، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔لہذا طرز حکومت کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنا پاکستان کے حق میں اورجمہوریت کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ ہے۔