انھیا! دے جا سکھیاں نوں

گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
آج کی معاشی بدحالی ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔مہنگائی اوربے روزگاری عرش معلیٰ پر پہنچی ہوئی ہے۔ بجلی کے بلوں اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مڈل کلاس ہی نہیں اپر مڈل کلاس کے لیے بھی ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ سفید پوش طبقے کے لیے بھی اپنا بھرم برقرار رکھنا ناممکن ہو گیاہے۔ اس سے زیادہ انقلاب کے لیے موزوں حالات نہیں ہو سکتے۔مگر انقلاب وہ قومیں لاتی ہیں جو باشعور ہوتی ہیں۔ہم کتنے باشعور ہیں وہ خوداپنے گریبان میں جھانکیں تو بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ ہماری ترجیحات بھی ایسی نہیں ہیں کہ انقلاب کی طرف یا تبدیلی کی طرف قدم بڑھا دیں۔
ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز اینکر جو بہت بڑے صحافی ہیں ، کالم بھی لکھتے ہیں اور خود کو پاکستان کا ہی نہیں عالمی سطح کا موٹیویشنل سپیکر بھی کہلاتے ہیں۔(چوہدری صاحب)آج سیاسی صورت حال کتنی زیادہ دگر گوں ہے، کسادبازاری آسمان کو پہنچی ہوئی ہے ، عام آدمی کے لیے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیاہے۔ ان موضوعات کے بجائے وہ خوبصورت نظر آنے کے ٹوٹکے بتا رہے ہیں ،سدا بہار جوانی کے ٹانک بیچ رہے ہیں،مردانہ ہی نہیں زنانہ قوت کے سپلیمنٹ متعارف کروا رہے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے کا آئینہ کہلاتے ہیں۔موصوف پر ہی کیا موقوف لاری اڈوں،شہر کے قرب و جوار میں دیواروں کو دیکھا جائے تو ان عبارت سے بھری پڑی ہوئی ہیں۔جرمن ہیلتھ کلینک، چین ہیلتھ کلینک،یونان ہیلتھ کلینک، ہمیشہ مردانگی برقرار رکھنے کے لیے ہمارے ساتھ رابطہ کریں، بنگالی بابا، کالے جادو کی کاٹ، محبوبہ آپ کے قدموں میں، اگر غیرملکی پاکستان میں آ جائے وہ نوشتہ دیوار دیکھے کسی کو ترجمے کے لیے کہہ دے تو اس کو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کی پوری قوم مردانہ کمزوری اور جادوٹونوں اور تعویذوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ان بابوں اور ہیلتھ کلینک والوں نے ہر مرد کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ ا±سے مردانگی لوٹانے پر ت±لے بیٹھے ہیں۔ان کے کاروبار چل رہے ہیں تبھی تو ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا،تیسرے کے بعد چوتھا اور چل سو چل ایسے کلینک بنے ہوئے ہیں۔
 ایسے بابے اپنی دکانیں سجا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس قوم کو روٹی سے زیادہ محبوبہ کی ز±لفوں سے کھیلنے کی حسرت اور معشوقہ کو قدموں میں بٹھانے کی خواہش ہو وہ انقلاب کیسے لا سکتی ہے۔ ہماری معاشی حالات ایسے ہیں جیسے تین سو سال قبل فرانس کے ہوا کرتے تھے لیکن پھر اس قوم نے اپنے اخلاق ،مینرز کو بلندیوں تک پہنچایا لیکن اس کے لیے انہیں خون کے دریا سے گزرنا پڑا۔ نگارگوا میں ہوا کرتے تھے،ایتھوپیا میں ہوا کرتے تھے۔آج ہم خود ایتھوپیا جیسے حالات سے دوچار ہیں مگر ان سے نکلنے کا کوئی چارہ نہیں کرتے کیونکہ ہماری ترجیحات معاشی مضبوطی نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے۔ یوں لگتا ہمارے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں ہے۔
مجھے یاد آگیا کہ ایک دور میں، میں منوبھائی کے ساتھ ریڈیو پاکستان پر پروگرام کیا کرتا تھا۔ منوبھائی اعلیٰ پائے کے کالم نگار بھی تھے، ایک دن میں نے ان کو یاد دلایا کہ آپ سیاست پر کتنا بھرپور اور جاندار لکھا کرتے تھے لیکن آج کل آپ موسمیات پر لکھنے لگے ہیں،ماحولیات پر لکھنے لگے ہیں، ہومیو پیتھی پر ،امریکی سنڈی اور کرنل باسمتی چاول پر لکھنے لگے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ سیاسی حالات ایسے ہیں کہ جو میں لکھنا چاہوں تو لکھ نہیں سکتا اگر لکھ دوں تو کوئی شائع نہیں کرتااور اگر شائع ہو بھی جائے تو کوئی اسے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا تو میں پھر یہ نہ لکھوں تو کیا لکھوں۔ انقلاب ان قوموں اور معاشروں میں آتے ہیں جہاں پر بھوک اور ننگ انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس میں کسر تو نہیں رہی مگر ہمارے ہاں خانقاہیں ، مزارات اور درگاہیں موجود ہیں۔جن لوگوں پر اللہ نے کرم نوازی کی ہوئی ہے انہوں نے لنگرخانے کھول رکھے ہیں۔ بھوک کے ستائے ہوئے جن لوگوں نے انقلاب کے لیے قدم بڑھانا ہوتا ہے ان کو روٹی ان مقامات اور جگہوں سے مل جاتی ہے۔ ان کے پھر انقلاب کی طرف بڑھے ہوئے قدم خود بخود واپس آ جاتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی چوک چوراہاایسا نہیں ہوگا جہاں پرآپ اپنی گاڑی سے کسٹم کلیئر کرائے بغیر گزر جائیں،بھکاری آپ کی گاڑی کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور کئی نے انگوٹھی پہن ہوتی ہے وہ آپ کے شیشے پر دستک دیتے ہیں اگر آپ ان کو خیرات دے دیں تو ٹھیک ہے ورنہ وہ آپ کی گاڑی کے شیشے توڑنے پر آ جاتے ہیں۔ اگر کسی سے اور کچھ نہ ہو سکے تو گاڑی پر وہ چریٹیں ضرور مار دیتا ہے۔ کئی ایسے بددماغ اور سرچڑھے بھکاری بھی ہیں جن کو اگر کوئی بائیک والا یا گاڑی والا معاف کرو بھائی کہہ دیں تو وہ دفع دور کی آواز لگانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اور گاڑی کے قریب آتے ہوئے یہ فقرہ تو کہنے سے بالکل نہیں چونکتے کہ ”انھیا! دے جا سکھیاں نوں“
پاکستان میں آج انسانی حقوق، معاشی حقوق ، ریاستی حقوق جس طرح سے استحصال زدہ ہیں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن ہماری ترجیحات ان سے نجات نہیں ہے بلکہ خواہشات کی بجاآوری ہے۔ ، ہمیں روٹی ملے نہ ملے ، مہنگائی عروج پر پہنچ جائے ،بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت نہ رہے، پٹرول نہ خریدنے پر گاڑی یا بائیک گھر میں کھڑی رہے ،یہ قابل برداشت ہے لیکن ان اینکر صاحب کا تجویز کردہ فوڈ سپلیمنٹ نہ ملے تو گزارا نہیں ہوتا۔مجھے یاد آگیا جب بھارت کے پاکستان میں ڈرامے چلا کرتے تھے۔ایک بڑا مشہور ڈراما ہوا کرتا تھا”ساس بھی کبھی بہو تھی“کینٹ کے علاقے کے کیبل آپریٹرز نے کسی وجہ سے ہڑتال کر دی۔ ایک بڑے اور بااختیارافسر کی اہلیہ نے ان سے کیبل آپریٹر کی شکایت کی، اس کیبل آپریٹر کو اٹھایا گیا اور اس کی ٹانگیں توڑ دی گئیں۔یہ ہیں ہماری ترجیحات ،ایسی قوم سے انقلاب کی توقع بھینس کے آگے بین بجانے سے زیادہ نہیں ہے۔ انقلاب برپا کرنے کے لیے ،جوان رہنے کے ٹانک کی ضرورت نہیں بلکہ قوم کے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔
قارئین!اس پچیس کروڑ ہجوم کو ایک قوم بنانے کے لیے ہمیں ان کی معاشرتی ،ذہنی اور اخلاقی تربیت درکار ہے۔جب تک پاکستانی قوم کی ذہنی اور شعوری تربیت نہ ہو گی اس وقت تک نہ ہی ہم ایک بہترین قوم بن سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ریاست کے لیے ایک مفید شہری ثابت ہو سکتے ہیں۔یقین جانیے جس ملک میں پچھلے 75سالوں میں 75ہزار سے زائد مدرسے بنا دیئے گئے ہوں اور و ہ صرف اس لیے کہ ان مدرسوں سے تیار ہو کر نکلنے والے اپنے اپنے روزگار کے لیے لاکھوں مساجد بنا کر ڈیرہ ڈال سکیں گے۔جب کہ ترقی یافتہ تو بہت دور کی بات ہم ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں بھی شمار نہیں ہوتے۔خود امریکہ ،یورپ اور کینیڈا کو دیکھ لیں کہ وہاں پر دنیا بھر سے طالب علم حصول علم کے لیے آتے ہیں اور ان ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیاں اور نامور کالجز قائم کر دیئے گئے ہیںجو پچھلے دو سو سال میں یورپ،امریکہ اور کینیڈا کی ترقی کوآسمان تک پہنچا چکے ہیں۔جب کہ پاکستان میں پھونکوں والا پیر اپنی کرامات دکھانے میں مشغول ہے۔اور کسی کو اس بات سے غرض نہیں کہ ہماری آنے والی نسل کیا ایسے پاکستان میں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق رہ پائے گی؟

ای پیپر دی نیشن