محمد اعجاز تنویر
پاکستان اپنی لیبر فورس کے حوالے سے دنیا کی 10 بڑی لیبر فورسز میں شامل ہے، ملک میں آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان کے لیے روزگار کے مناسب مواقع پیدا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف، آجر حضرات کو اپنی صنعتوں کے لیے ضروری ہنر مندوں کی مطلوبہ تعداد میسر نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہنر کی طلب اور رسد میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ خواتین، مردوں سے زیادہ، تعلیم اور ہنر کی تربیت تک رسائی سے محروم ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ زیادہ تر کم ہنر مند ملازمتوں سے بھی محروم رہ جا تی ہیں۔ لیبر مارکیٹ میں ہماری خواتین کی کم شرکت کی وجہ سے شرحِ اقتصادی ترقی بھی بڑھ نہیں پا رہی ہے۔
پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں ILO کے تجربے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ مہارت کی ترقی غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس کاروزگار اور آمدنی پیدا کرنے کے مواقع کے تناظر میںمنصوبہ بندی اور عمل درآمد سے گہرا تعلق ہے ۔پاکستان لیبر فورس سروے کے مطابق ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اس میں برسر روزگار لیبر فورس کی تعداد 2020-21 کے سروے کے مطابق 67.25 ملین تھی جو کہ سن 218-19 کے لیبر فورس سروے کے مطابق 64.03 ملین یعنی 3.22 ملین زائد ہے ۔سروے کے مطابق پاکستان میں ملازمت کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں سالانہ 1.61 ملین کا اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں مہارت رکھنے والے اشخاص باہر کے ممالک میں اپنی قسمت آزمائی کا رجحان رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پیچھے ایسے لو گ رہ جاتے ہیں جو ہنر مند نہیں کہلا سکتے اور اسی وجہ سے ان کی اکثریت کم تنخواہ لیتی ہے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق سال 2020-21 میں سوا دو لاکھ پاکستانیوں نے اچھے مستقبل کے لئے پاکستان کو خیرآباد کہا مگر اگلے سال یعنی 2021-22 میں یہ تعداد بڑھ کر 765,000 ہو گئی یعنی اپنے خوابوں کی تعبیر اور اچھی آمدنی کے لئے تقریباً تین گنا لوگوں نے ملک چھوڑا۔
پاکستان کو درپیش حالیہ معاشی مسائل کی وجہ سے بھی لوگ جو کہ ہنر مند ہیں وہ باہر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں مزید ہنر مندوں کی کمیابی پاکستان کی صنعتوں اور کاروبار کے لئے بڑے مسائل پیدا کرے گی۔ ایسی صورت میں جب موجودہ سیاسی و عسکری قیادت ایک منصوبہ کے تحت ملک میں کاروبار اور صنعتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں وہیں یہ وقت ہے کہ پاکستان کے تعلیمی میدان میں نصاب کو بدلا جائے اور پاکستان کی صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیا ن لنکیج کو فروغ دیا ۔جس سے ایک بہتر اوور ہنر مند معیشت کو فروغ دینے کے کوشش کا آغاز کیا جائے۔ جب صنعت اور اکیڈمیا آپس میں تعاون کرتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں، تو یہ باہمی طور پر فائدہ مند رشتہ پیدا کرتا ہے جو جدت، اقتصادی ترقی اور سماجی ترقی کو بڑھاتا ہے۔راقم یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کے رابطے سے صنعت کاروں، کاروباری حضرات اور تعلیمی اداروں سے ہنر مند افرادی قوت کو پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ اس طرح، یہ ہنر مند گریجویٹس بہتر معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون مشترکہ تحقیقی منصوبوں اور R&D فروغ کو بھی مدد ملے گی۔ صنعت تازہ ترین تحقیقی نتائج اور علمی مہارت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، جس سے اقتصادی ترقی اور مسابقت کو فروغ مل سکتا ہے۔''صنعت اکیڈمی شراکت داری خصوصی تربیتی پروگراموں کی تخلیق میں سہولت فراہم کرتی ہے جو صنعت کی ضروریات کے مطابق ہوں۔اس سے اپنا کاروبار شروع کرنے میں دلچسپی رکھنے والے طلباءاور فیکلٹی ممبران کو وسائل، رہنمائی، اور انکیوبیشن سپورٹ فراہم کر کے انٹرپرینیورشپ کو فروغ دےا جا سکتاہے۔ ساتھ ہی صنعت اور اکیڈمی کے درمیان تعاون تعلیم کی سطح پر تحقیق سے تجارتی شعبے میں ٹیکنالوجی اور علم کی منتقلی کی راہ ہموار کرتاہے۔ یہ جدید مصنوعات اور خدمات کو مارکیٹ میں لانے کے عمل کو تیز کرتا ہے، معاشی سرگرمیوں کو بڑھاتا ہے۔ تعلیمی ادارے صنعتی شراکت داروں کی معلومات کی بنیاد پر اپنے نصاب کو اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ فارغ التحصیل افراد کے پاس موجودہ صنعت کے تقاضوں کو پورا کرنے، مہارت کے فرق کو کم کرنے اور ملازمت کی اہلیت کو بہتر بنانے کے لیے درکار ہنر اور علم حاصل ہو۔ راقم کی یہ تجویز ہے کہ تکنیکی تعلیم کو ہر طالب علم کے لیے لازمی قرار دیا جائے جب کہ کسی بھی کلاس کی 50 فیصد تھیوری پر مبنی اور 50 فیصد صنعتوں میں ہینڈ آن ٹریننگ ہونی چاہیے۔ نجی اور سرکاری اداروں میں اس کو لازمی قرار دینے کے لیے قانون بنایا جائے۔
انڈسٹری اور اکیڈمی لنک کو مو¿ثر طریقے سے فروغ دینے کے لیے حکومتوں، تعلیمی اداروں اور صنعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ پالیسیاں، ترغیبات، اور فریم ورک قائم کر سکتے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں ہم ایک زیادہ متحرک اور اختراعی معیشت کو رواج دے سکتے ہیں، جو پائیدار ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔